سوال
قولی و عملی تواتر سے قربانی کا ثبوت کوئی ثبوت ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بعض لوگ جو احادیث کے استناد پر شک رکھتے ہیں اور محض حدیث کی بنیاد پر کسی دینی بات کو ماننے پر آمادہ نہیں ہوتے بلکہ قرآن سے ہی سند اور حجت طلب کرتے ہیں، ان کو آپ یہ کہتے ہوئے سنیں گے، بلکہ بارہا سن چکے ہوں گے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت (قربانی) کا تعلق صرف مناسکِ حج سے تھا۔ اور قرآن نے بھی اس سنت کو صرف اسی دائرے میں جاری کیا ہے۔ حج اور حجاج کے علاوہ اس سنت کے اجرا کی کوئی ہدایت قرآن میں نہیں ملتی۔
یہ بات درست ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی خاص اسی موقع پر تھی اور قرآن نے اسی سلسلے میں قربانی کا حکم دیا، لیکن اگر حدیث کو بنیاد بنا کر دین کی کسی چیز کو ماننے سے ان لوگوں کو صرف یہ خیال روکتا ہے کہ حدیث کی روایات مستند نہیں ہیں—نہ یہ کہ قرآن کے علاوہ دین میں کوئی چیز حجت نہیں—تو یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ حالانکہ وہ یہ مانتے ہیں کہ اگر رسول اللہ ﷺ کے کسی قول یا عمل کی روایت قابلِ اعتماد ثابت ہو جائے تو وہ دین میں حجت ہوگی اور اس سے ثابت شدہ امر دینی حکم شمار ہوگا۔
انہیں جان لینا چاہیے کہ رسول اللہ ﷺ سے قربانی کی روایت ان روایات میں سے نہیں ہے جن پر صحت کے حوالے سے کوئی شبہ کیا جا سکے۔ یہ روایت صرف قولی نہیں بلکہ مسلسل، متواتر اور علانیہ عملی روایت بھی موجود ہے، جس میں جھوٹ کی کوئی گنجائش نہیں۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں، اور یہ روایت جامع ترمذی میں موجود ہے:
أَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ عَشْرَ سِنِينَ يُضَحِّي
’’رسول اللہ ﷺ مدینہ کی پوری دس سالہ اقامت میں برابر قربانی کرتے رہے۔‘‘
اسی طرح ایک اور روایت میں ہے:
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَذْبَحُ وَيَنْحَرُ بِالْمُصَلَّى (رواہ البخاری)
’’رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا کہ عیدگاہ میں قربانی کیا کرتے تھے۔‘‘
کیا کوئی معقول انسان یہ سوچ سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں اتنا بڑا جھوٹ امت میں قبول ہو جائے کہ آپ ﷺ نے کوئی کام کیا ہی نہیں اور پھر کہا جائے کہ آپ ﷺ نے دس سال متواتر عیدگاہ کے بھرے مجمع میں قربانی کی؟ یہ عقل سے بعید بات ہے کہ ایسی روایات کو بھی یوں کہہ کر رد کر دیا جائے کہ پتہ نہیں سچ ہیں یا جھوٹ۔
حدیث کے مجموعے اگرچہ بعد میں مرتب ہوئے، لیکن اگر ان میں اس قسم کی باتیں کسی سازش کے تحت گھڑ لی گئی ہوتیں تو یہ عجمی سازشی عقل کا کمال ہوتا کہ وہ ایسا جھوٹ اختیار کرتے جو فوراً پکڑا جاتا۔ اور پھر حیرت یہ کہ کوئی ایک عرب بھی ان سازشوں پر احتجاج نہ کرتا کہ ہماری نسلیں رسول اللہ ﷺ کے ہر عمل کی پیروی کرتی رہیں اور ہمیں قربانی کے اس مسلسل عمل کی کوئی خبر نہ ہوئی؟ اور آج تم بخارا اور ترمذ سے آ کر ہمیں خبر دے رہے ہو کہ رسول اللہ ﷺ دس سال مسلسل یہ عمل کرتے رہے؟
یہ بھی نہیں، بلکہ روایات میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قربانی کے فضائل بیان کیے اور اس پر ترغیب دینے کے ساتھ سخت وعید بھی فرمائی:
مَنْ كَانَ لَهُ سَعَةٌ وَلَمْ يُضَحِّ, فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا – رواہ أحمد، وابن ماجہ، وصححہ الحاکم، لکن رجح الأئمة غیرہ وقفه
’’جس کسی کے پاس وسعت ہو اور وہ قربانی نہ کرے، وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے۔‘‘
پھر بھی یہ ماننا کہ ہمارا پورا معاشرہ اور ہمارے اسلاف عید کی قربانی سے ناواقف رہے اور رسول اللہ ﷺ کی ترغیب اور وعید ان کے کانوں تک نہ پہنچی، نہایت بےعقلی ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایسا اہم عمل امت کے پورے معاشرے سے پوشیدہ رہ جائے اور اچانک سب نے امنا و صدقنا کہہ کر قربانی شروع کر دی؟
اس سے بالکل واضح ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے نہ صرف قربانی کے عمل کی روایت متواتر ہے بلکہ اس کے حکم کی روایت بھی ہر شک و شبہ سے پاک ہے۔ امت کے عمومی تواترِ عمل نے ان کی تصدیق کی ہے۔ اگرچہ یہ روایات بعد میں مدون ہوئیں، لیکن ان پر کسی دور میں انکار یا احتجاج نہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ قربانی کا عمل امت میں نسل در نسل جاری رہا۔ یہ عمومی توارث ایسا ثبوت ہے جس کی قوت و قطعیت وہی شخص رد کرسکتا ہے جو قرآن کے موجودہ متن کو بھی اصلی قرآن ماننے میں شک رکھتا ہو، کیونکہ قرآن کے ثبوت کا سب سے بڑا ذریعہ بھی یہی توارث ہے۔
لہٰذا یہ حقیقت بالکل ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے 10 ذوالحجہ (یوم النحر) کو حج کے علاوہ بھی مستقل طور پر عید کی قربانی کی ہے اور اس کا حکم بھی دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں رہتا کہ قربانی دینِ محمدی ﷺ کا حصہ ہے، نہ کہ بعد کی کوئی ایجاد۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب