دوران نماز فجر اگر سورج نکل آئے، تو نماز کا کیا حکم ہے؟
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

دوران نماز فجر اگر سورج نکل آئے، تو نماز کا کیا حکم ہے؟

جواب:

نماز ہو جائے گی، سورج نکلنے کے بعد اعادہ کی ضرورت نہیں۔
❀ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے طلوع آفتاب سے پہلے نماز صبح کی ایک رکعت پالی، اس نے نماز صبح پالی اور جس نے غروب آفتاب سے پہلے عصر کی ایک رکعت پڑھ لی، اس نے عصر کی نماز پالی۔“
(صحيح البخاري: 579، صحیح مسلم: 607)
یہ روایت صحیح مسلم (209) میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی مروی ہے۔
یہ حدیث مبارک اپنے مفہوم میں واضح ہے کہ جس نے غروب آفتاب سے پہلے عصر کی ایک رکعت پالی، باقی رکعات ادا کر لے تو اس کی نماز عصر صحیح ہے، اگر طلوع آفتاب سے پہلے نماز فجر کی ایک رکعت پالی، دوسری رکعت ادا کرنے پر نماز فجر ادا ہو جائے گی۔
❀ مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کہتے ہیں:
”حدیث باب حنفیہ کے بالکل خلاف ہے، مختلف مشائخ حنفیہ نے اس کا جواب دینے میں بڑا زور لگایا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کوئی شافی جواب نہیں دیا جا سکا، یہی وجہ ہے کہ حنفیہ مسلک پر اس کو مشکلات میں شمار کیا گیا ہے۔“
(درس ترمذی: 434/1)
❀ نیز اس مسئلہ میں اپنے دلائل پر تبصرہ کرنے کے بعد کہتے ہیں:
”خود صاحب معارف السنن (علامہ محمد یوسف بنوری) نے حضرت شاہ صاحب (علامہ انور شاہ کشمیری) کی اس توجیہ کو بہت مفصل اور موجہ کر کے بیان کیا ہے، لیکن آخر میں خود انہوں نے بھی یہ اعتراض کیا ہے کہ شرح صدر اس پر بھی نہیں ہوتا، اس کے علاوہ ان تمام توجیہات پر ایک مشترک اعتراض یہ ہے کہ حدیث کو اپنے ظاہر سے مؤوّل کرنا کسی نص یا دلیل شرعی کی وجہ سے ہو سکتا ہے اور اس معاملہ میں تفریق بین الفجر والعصر کے بارے میں حنفیہ کے پاس نص صریح نہیں، صرف قیاس ہے اور وہ بھی مضبوط نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلہ میں حنفیہ کی طرف سے کوئی ایسی توجیہ اب تک احقر (محمد تقی عثمانی) کی نظر سے نہیں گزری، جو کافی اور شافی ہو، اس لیے حدیث کو توڑ مروڑ کر حنفیہ کے مسلک پر فٹ کرنا کسی طرح مناسب نہیں، یہی وجہ ہے کہ حضرت (علامہ رشید احمد) گنگوہی نے فرمایا کہ اس حدیث کے بارے میں حنفیہ کی تمام تاویلات باردہ ہیں اور حدیث (ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ) میں کھینچ تان کرنے کے بجائے کھل کر یہ کہنا چاہیے کہ اس بارے میں حنفیہ کے دلائل ہماری سمجھ میں نہیں آسکے، اور ان اوقات میں نماز پڑھنا ناجائز تو ہے لیکن اگر کوئی پڑھ لے تو ہو جائے گی۔ حضرت گنگوہی کے علاوہ صاحب بحر الرائق (علامہ ابن نجیم) اور علامہ شبیر احمد عثمانی نے بھی دلائل کے اعتبار سے ائمہ ثلاثہ (امام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام مالک رحمہم اللہ) کے مسلک کو ترجیح دی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ امام ابو یوسف سے ایک روایت یہ مروی ہے کہ طلوع شمس سے فجر کی نماز فاسد نہیں ہوتی۔“
(درس ترمذی: 439/1-440)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے