قربانی میں اپنا حصہ رکھ کر باقی فروخت کرنا جائز ہے یا نہیں؟
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ، جلد 1، صفحہ 595

سوال

ایک شخص مثلاً بیس روپے میں قربانی کے لیے جانور خرید لایا۔ اس میں ایک حصہ اپنے لیے رکھ لیا اور باقی چھ حصے تین روپے فی حصہ کے حساب سے دوسرے چھ حصے داروں کو فروخت کر دیے۔ یوں اپنی قربانی بھی کر لی اور دنیاوی فائدہ بھی اٹھا لیا۔ کیا یہ عمل جائز ہے یا نہیں؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قربانی کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے لیے جانور کا خون بہانا اور جان دینا۔ یہ ایک ایسی عبادت ہے جو ایک ہی چیز ہے اور اس کے حصے نہیں کیے جا سکتے۔ اسی لیے علما نے لکھا ہے کہ اگر ایک شخص کی نیت گوشت لینے کی ہو اور چھ افراد کی نیت قربانی کی ہو تو کسی کی بھی قربانی درست نہیں ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خون بہانے اور جان دینے کی تقسیم ممکن نہیں۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایک جانور کو سات افراد کی طرف سے قربانی کے قائم مقام بنا دیا ہے۔ یہ معاملہ چونکہ خلافِ قیاس ہے، اس لیے یہ اپنے محل تک ہی محدود ہے اور اسے وسیع نہیں کیا جا سکتا۔

اب اگر کوئی شخص قربانی کا جانور خریدتا ہے اور خریدنے کے وقت اس کی نیت صرف فروخت کرنے کی ہو، حصہ رکھنے کی نہ ہو، بلکہ یہ سوچ ہو کہ پورا جانور بیچ دوں گا، پھر اگر قیمت بڑھ گئی جیسے بیس روپے کا خریدا اور تیس روپے تک اس کی قیمت چلی گئی اور چھ یا سات حصے مکمل ہوگئے، اور بیع و شرا کی مجلس ختم ہونے سے پہلے یہ سوچا کہ ایک حصہ اپنے لیے رکھ لوں تو یہ صورت یوں ہے جیسے سات اشخاص نے مل کر جانور خریدا اور قربانی کی۔ یا یوں جیسے ایک شخص کے گھر میں جانور موجود تھا اور اس میں سے ایک حصہ اپنے لیے مخصوص کر لیا۔ یہ درست صورت ہے۔

لیکن اگر خریدنے کے وقت یا خریداری کے بعد سودے کے پختہ ہونے سے پہلے ہی اس نے یہ نیت کر لی کہ اس جانور میں میرا بھی حصہ ہوگا، تو پھر اس کے اپنے حصے پر منافع شمار نہیں ہوگا جبکہ باقی حصوں پر منافع شمار ہوگا۔ اس طرح تقسیم کی ایک نئی صورت پیدا ہوجائے گی، اور یہ درست نہیں ہے۔

اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ خالص عمل کو ہی قبول فرماتا ہے۔ ایسے شخص کی نیت میں خلوص نہیں رہتا، کیونکہ اس نے پہلے سے یہ سوچ رکھا ہے کہ میرے حصے کی رقم مجھ پر نہ آئے بلکہ دوسروں سے وصول کروں، گویا وہ باقی حصوں پر منافع رکھتا ہے اور حقیقت میں اپنا حصہ بیچتا ہے۔ اس وجہ سے اس کے عمل میں فساد پیدا ہو گیا اور یہ طریقہ ناجائز ہے۔

(فتاویٰ اہل حدیث: جلد 2، صفحہ 468)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے