سوال:
کندھے سے کندھا ملانے کا کیا معنی ہے؟
جواب:
بعض لوگ کہتے ہیں کندھے سے کندھا ملانے سے مراد اس طرح کھڑا ہونا ہے کہ کوئی تیسرا شخص درمیان میں داخل نہ ہو سکے۔
علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ (1353ھ) کہتے ہیں:
”فقہائے اربعہ کے نزدیک کندھے سے کندھا ملانے کا مطلب یہ ہے کہ دو نمازیوں کے درمیان تیسرے کی جگہ نہ چھوڑی جائے۔ باجماعت اور اکیلے نماز میں پاؤں کے درمیانی فاصلے کا فرق مجھے سلف سے نہیں ملا۔ سلف صالحین باجماعت نماز کی صورت میں اپنے پاؤں کا درمیانی فاصلہ انفرادی نماز سے زیادہ نہیں رکھتے تھے۔ یہ مسئلہ غیر مقلدین (اہل حدیث) کی ذاتی اختراع ہے۔ اس سلسلہ میں ان کے پاس صرف لفظ الزاق (جو کہ احادیث میں وارد ہوا ہے اور اس کا معنی ایک نمازی کا دوسرے نمازی سے پاؤں اور کندھا چمٹانا) ہے۔ نہیں معلوم کہ غیر مقلدین یہ کہہ کر کیا مراد لیتے ہیں کہ باء الصاق ”ملاپ کے معنی“ کے لیے ہوتی ہے۔ پھر وہ الصاق کی مثال یہ دیتے ہیں کہ مررت بزيد ”میں زید کے پاس سے گزرا۔“ کیا ان کا گزر اس طرح ہوا کہ ان میں سے ایک دوسرے کے ساتھ مل گیا یا کیا معنی ہوگا؟ تعامل والے مسائل میں الفاظ کو اختیار نہیں کیا جاتا۔ جب ہم نے صحابہ و تابعین کا جماعت میں قیام انفرادی قیام سے الگ نوعیت کا نہیں پایا، تو معلوم ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ الزاق بول کر صرف صف کو اچھی طرح ملانا اور خالی جگہ کو پُر کرنا مراد لیا ہے۔ پھر آپ دل میں غور کریں کہ کندھے سے کندھا ملانا بغیر سخت مشقت کے ممکن نہیں، بلکہ مشقت کے بعد بھی ممکن نہیں۔ لہذا یہ غیر مقلدین کی گھڑنٹ ہے۔ سلف میں اس کی مثال نہیں ملتی۔“
(فيض الباري: 302/2)
کشمیری صاحب کی عبارت سے چند باتیں سمجھ آتی ہیں:
① فقہائے اربعہ کے نزدیک کندھے سے کندھا ملانے کا مطلب حقیقی طور پر کندھے سے کندھا ملانا نہیں، بلکہ دو نمازیوں کا باہم قریب ہو کر کھڑا ہونا ہے۔ البتہ وہ آپس میں اتنا فاصلہ چھوڑ سکتے ہیں کہ کوئی تیسرا شخص درمیان میں کھڑا نہ ہو سکے۔
اختلاف پر معذرت، لیکن یہ بات کسی امام سے ثابت نہیں۔
② سلف میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں، جو جماعت میں پاؤں کا فاصلہ انفرادی نماز سے زیادہ رکھتا ہو، ایسا صرف غیر مقلدین کرتے ہیں۔
بجا کہ کوئی غیر مقلد قسم کی مخلوق ہوگی، جو پاؤں کا فاصلہ انفرادی نماز سے زیادہ رکھتی ہوگی، لیکن اگر اس سے مراد اہل حدیث ہیں، تو یہ کشمیری صاحب کی غلطی ہے۔ اہل حدیث انفرادی اور باجماعت دونوں حالتوں میں کندھوں کے حساب سے پاؤں کھولنے کے قائل ہیں اور اسی طرح صف درست ہوتی ہے۔
③ اہل حدیث کے پاس صرف لفظ الزاق ہی ہے، جسے وہ کندھے سے کندھا اور پاؤں سے پاؤں ملانے پر پیش کرتے ہیں۔
جبکہ الزاق کے ساتھ ساتھ تراصوا ”باہم چپک جاؤ“ اور سدوا الخلل ”خالی جگہیں پُر کرو“ وغیرہ کے الفاظ اسی معنی پر واضح ہیں، جو علمائے اہل حدیث کرتے ہیں۔
④ کندھے سے کندھا ملانے والی حدیث میں باء الصاق ”ملاپ “کے لیے ہے، جس کی مثال مررت بزيد ”میں زید کے پاس سے گزرا“ ہے۔ کیا کوئی کسی کے پاس سے گزرتا ہے تو ان کا جسم بھی باہم ملتا ہے؟
مررت بزيد ”میں زید کے پاس سے گزرا“ یہ تو الصاق مجازی کی مثال ہے۔ الصاق حقیقی کی مثال اہل لغت نے یوں ذکر کی ہے: أَصَابَهُ دَاءٌ ”اسے بیماری لگی ہے۔“ کیا بیماری جسم سے چپٹی نہیں ہوتی؟ حدیث میں پاؤں سے پاؤں اور کندھے سے کندھا ملانے کے ذکر میں جو باء الصاق ہے، وہ الصاق حقیقی کے لیے ہے۔
⑤ صف بندی پر امت کا تعامل ہے اور وہ صرف افراد کے باہمی ایک سمت میں کھڑے ہونے پر ہے، لہذا حدیث کے الفاظ کی بجائے تعامل ہی معتبر ہے۔
صحابہ و تابعین کا عمل تو صحیح احادیث کی روشنی میں یہی تھا کہ وہ باہم پاؤں کے ساتھ پاؤں اور کندھے سے کندھا اچھی طرح ملاتے تھے۔ ہر دور میں اہل حق اس پر عمل کرتے آئے ہیں۔ اہل حدیث کی مساجد میں آج بھی یہ سنت زندہ ہے۔ والحمد للہ!
⑥ کندھے سے کندھا حقیقی طور پر ملانا انتہائی مشقت طلب، بلکہ ناممکن ہے۔ یہ غیر مقلدین کی گھڑنٹ ہے۔
تجربہ شاہد ہے کہ اس میں کوئی مشقت نہیں، بلکہ آسانی ہے۔ آپ کسی بھی اہل حدیث مسجد میں جا کر مشاہدہ کر سکتے ہیں۔
❀ علامہ عبید اللہ رحمانی مبارک پوری رحمہ اللہ (1414ھ) فرماتے ہیں:
”یہاں الزاق کو مجازی معنی پر محمول کرنا محتاج قرینہ ہے۔ الزاق کی یہ تفسیر کرنا کہ دو نمازیوں کے درمیان تیسرے آدمی کی جگہ نہ چھوڑی ہو، اس پر کوئی شرعی و عقلی دلیل نہیں۔ یہاں اس معنی پر محمول کرنے کے لیے ادنیٰ سا قرینہ اور کوئی کمزور ترین شائبہ بھی موجود نہیں۔ ایک صاحب نے سنت کو بدعت بنادیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ باہم خالی جگہ چھوڑنا، آپس میں نہ ملنا اور الزاق پر عمل نہ کرنا سنت ہے۔ پھر اسی پر بس نہیں کی، بلکہ اس قدر جری ہیں کہ اپنی خانہ ساز بات ائمہ اربعہ کے حوالے سے بیان کر دی۔ میں کہتا ہوں کہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام کے عمل سے کون سی دلیل ہے، جو انفرادی اور جماعت کی حالت میں نمازی کے دونوں پاؤں کے درمیان چار انگلیوں یا ایک بالشت برابر فاصلے کی حد بندی کرتی ہے؟ حق تو یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شفقت و نرمی کرتے ہوئے نمازی کے پاؤں کے مابین فاصلے کو معین نہیں کیا، کیونکہ یہ فاصلہ نمازی کی حالت کے مطابق بدلتا رہتا ہے، جیسا کہ کوئی نمازی پتلا، کوئی موٹا، کوئی مضبوط اور کوئی کمزور ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ نمازی اپنے پاؤں کو جماعت میں اتنا کھولے گا کہ اس کے لیے بغیر تکلف و مشقت کے خالی جگہ کو ختم کرنا اور ساتھ والے کے کندھے سے کندھا اور پاؤں سے پاؤں ملانا ممکن ہو۔ پھر ہمارے پاس صرف لفظ الزاق ہی نہیں، بلکہ ”تراص“، ”سد خلل“ اور شیطان کے لیے خالی جگہ چھوڑنے سے ممانعت جیسے الفاظ نبوی بھی ہیں، جن میں سے ہر ایک الزاق کو حقیقی معنی پر محمول کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ اگر صرف لفظ الزاق ہی ہوتا، تو پھر بھی کیا ہو جانا تھا؟ کیونکہ خود (کشمیری صاحب) نے اپنی عبارت کے اختتام پر اس کا اعتراف کر لیا ہے کہ الزاق سے مراد باہم اچھی طرح مل جانا اور خالی جگہ نہ چھوڑنا ہے۔ یہی تو ہم کہتے ہیں۔ باہم اچھی طرح ملنا اور خالی جگہ چھوڑنے سے بچنا تب ہی ممکن ہے، جب آدمی اپنے کندھے کو ساتھ والے نمازی کے کندھے سے اور پاؤں کو اس کے پاؤں سے حقیقی طور پر ملالے۔ نہ جانے (کشمیری صاحب) الصاق حقیقی کی اس مثال کے بارے میں کیا کہیں گے کہ عرب کہتے ہیں: به داء ”اسے بیماری چپٹی ہے۔“ پھر وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے بارے میں کیا کہیں گے: ”جب کوئی اپنے ختنہ کو مقامِ ختنہ کے ساتھ ملائے، تو اس پر غسل واجب ہو جائے گا۔“ (کیا یہاں بھی الزاق کا مجازی معنی مراد لیا جائے گا؟) صحیح و محکم حدیث تعامل کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کرتی ہے، نہ یہ کہ تعامل، حدیث کے قابل عمل یا ناقابل عمل ہونے کا فیصلہ کرتا ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے نزدیک اہل مدینہ کے یا دیگر بلاد اسلامیہ کے لوگوں کے عمل میں کوئی فرق نہیں۔ باوجود اس کے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صحابہ کرام کا عمل، خلفائے راشدین کا عمل اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمام صحابہ و تابعین کا عمل باہم مل کر کھڑے ہونے اور درمیان میں خالی جگہ بالکل نہ چھوڑنے ہی پر تھا۔ صدر اول، یعنی صحابہ و تابعین کے مقابلے میں بعد والوں کا عمل ناقابل اعتبار ہے۔ مزید یہ کہ کندھے سے کندھا اور پاؤں سے پاؤں ملانے میں ادنیٰ سی مشقت بھی نہیں ہوتی۔ ہم حدیث پر عمل کرتے ہوئے اور سنت کے اتباع میں بغیر کسی تکلف و مشقت کے ایسا کرتے ہیں۔ ہم جماعت میں اپنے پاؤں کا درمیانی فاصلہ انفرادی حالت سے زیادہ بھی نہیں رکھتے، لیکن اس سنت پر عمل کرنا صرف انہی لوگوں کے لیے آسان ہے، جو سنت اور صاحب سنت سے محبت رکھتے ہیں اور سنت پر عمل چھوڑنے کے لیے حیلے بہانے نہیں تراشتے۔ رہا مقلد، جس کی بصیرت جواب دے گئی ہے، تو اس کے لیے ہر سنت بوجھ ہے، سوائے اس کے، جو اس کی خواہش کے مطابق ہو۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت دے اور انہیں صحیح ثابت احادیث پر عمل کرنے اور تاویل و تحریف کو ترک کرنے کی توفیق بخشے۔ “
(مرعاة المفاتيح: 6/4)