سوال
کیا زکوٰۃ کی رقم سے کسی جگہ فری ڈسپنسری قائم کی جا سکتی ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس مسئلے میں علماء کرام کے درمیان کافی اختلاف پایا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں مصارفِ زکوٰۃ کے تحت ساتویں مصرف "فی سبیل اللہ” کی تفسیر میں مختلف آراء ہیں۔
◄ جمہور علماء اسلام کے نزدیک "فی سبیل اللہ” سے مراد جہاد فی سبیل اللہ ہے۔
◄ تاہم بعض احادیث کی روشنی میں حج اور عمرہ بھی "فی سبیل اللہ” میں شامل ہیں۔
احادیث سے دلائل
➊ حدیث ابو بکر بن عبدالرحمٰن
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«أَعْطِهَا فَلْتَحُجَّ عَلَيْهِ، فَإِنَّهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ» (سنن ابی داؤد، باب العمرة، ج: ۱، ص: ۲۷۲)
یعنی اسے دے دو تاکہ وہ اس پر حج کرے، کیونکہ یہ فی سبیل اللہ میں داخل ہے۔
واقعہ: ام معقلؓ نے عرض کیا کہ مجھ پر حج فرض ہو چکا ہے مگر میرے شوہر ابو معقل مجھے اونٹ نہیں دیتے، کیونکہ وہ اونٹ فی سبیل اللہ صدقہ کر چکے ہیں۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہ اونٹ حج کے لئے دے دیا جائے کیونکہ حج بھی فی سبیل اللہ میں شامل ہے۔
➋ حدیث ابن لاسؓ الخزاعی
«حَمَلَنَا النَّبِيُّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – عَلَى إبِلٍ مِنْ الصَّدَقَةِ إلَى الْحَجِّ» (رواہ احمد، و ذکره البخاري تعلیقاً، نیل الاوطار، جلد ۴، ص ۱۷۰)
یعنی رسول اللہ ﷺ نے حج کی ادائیگی کے لئے ہمیں صدقہ کے اونٹ سواری کے لئے فراہم کیے۔
➌ حدیث ام معقلؓ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«الحَجُّ وَالْعُمرةُ فِی سبیل اللہ» (رواہ احمد، نیل الاوطار، ج۴، ص ۱۷۰)
یعنی حج اور عمرہ بھی فی سبیل اللہ میں شامل ہیں۔
امام شوکانی کا قول
امام شوکانیؒ فرماتے ہیں:
أَحَادِيثُ الْبَابِ تَدُلُّ عَلَى أَنَّ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ مِنْ سَبِيلِ اللَّهِ، وَأَنَّ مَنْ جَعَلَ شَيْئًا مِنْ مَالِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ جَازَ لَهُ صَرْفُهُ فِي تَجْهِيزِ الْحُجَّاجِ وَالْمُعْتَمِرِينَ۔ (نیل الاوطار، ج۴، ص۱۷۱)
ان احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ حج اور عمرہ فی سبیل اللہ میں شامل ہیں۔ لہٰذا جو شخص اپنا مال فی سبیل اللہ وقف کرے، وہ اس سے حاجیوں اور معتمرین کی تیاری میں مدد دے سکتا ہے۔
بعض علماء کی رائے: فی سبیل اللہ کا عموم
کچھ فقہاء کے نزدیک "فی سبیل اللہ” کا لفظ عام ہے، اور ہر کار خیر پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔
تفسیر کبیر (ج۴، ص۴۱۴) میں ہے:
وَاعْلَمْ أَنَّ ظَاهِرَ اللَّفْظِ فِي قَوْلِهِ: وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يُوجِبُ الْقَصْرَ عَلَى كُلِّ الْغُزَاةِ، فَلِهَذَا الْمَعْنَى نَقَلَ الْقَفَّالُ فِي «تَفْسِيرِهِ» عَنْ بَعْضِ الْفُقَهَاءِ أَنَّهُمْ أَجَازُوا صَرْفَ الصَّدَقَاتِ إِلَى جَمِيعِ وُجُوهِ الْخَيْرِ مِنْ تَكْفِينِ الْمَوْتَى وَبِنَاءِ الْحُصُونِ وَعِمَارَةِ الْمَسَاجِدِ، لِأَنَّ قَوْلَهُ: وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ عَامٌّ۔ (فتاوی اہل حدیث، ج۲، ص۱۵۸، والمرشد فی احکام الزکوۃ)
یعنی "فی سبیل اللہ” کا ظاہر عام ہے اور اسے صرف غازیوں تک محدود کرنا لازم نہیں۔ اسی لئے بعض فقہاء نے کہا کہ صدقات کو ہر کار خیر پر خرچ کیا جا سکتا ہے جیسے:
◈ مردوں کو کفنانا
◈ قلعے بنانا
◈ پل تعمیر کرنا
◈ مساجد کی تعمیر
نواب صدیق حسن خانؒ کا قول
نواب صدیق حسن خانؒ فرماتے ہیں:
قيل ان اللفظ عام فلا یجوز قصرہ علی نوع خاص ویدخل فیه جمیع وجوہ الخیر من تکفین الموتی وبناء الجسور والحصون وعمارة المسجد وغیر ذلك والاول اولیٰ لاجماع الجمھور علیه۔ (فتح البیان، ص۴۲۴؛ فتاوی اہل حدیث، ج۲، ص۱۵۷)
یعنی بعض علماء نے کہا ہے کہ "فی سبیل اللہ” کا لفظ عام ہے اور اس کو صرف ایک قسم (جہاد یا غازیوں) تک محدود کرنا درست نہیں۔ اس میں تمام کار خیر شامل ہیں جیسے:
◈ مردوں کو کفن دینا
◈ پل تعمیر کرنا
◈ قلعے اور مساجد کی تعمیر وغیرہ
البتہ پہلی رائے (جہاد بمعہ حج و عمرہ) بہتر ہے کیونکہ اس پر جمہور کا اجماع ہے۔
نتیجہ
◈ بعض فقہاء کے نزدیک چونکہ فری ڈسپنسری بھی کار خیر میں شامل ہے، اس لئے زکوٰۃ کے مال سے اس کا قیام جائز قرار دیا جا سکتا ہے۔
◈ تاہم احتیاط اور افضل یہی ہے کہ "فی سبیل اللہ” کی وسعت کو زیادہ نہ لیا جائے، ورنہ دوسرے سات مصارف بے معنی ہو جائیں گے۔
◈ اس لئے زکوٰۃ کے مال سے فری ڈسپنسری قائم نہ کی جائے تو بہتر ہے، لیکن اگر کوئی ایسا کر لے تو اس پر اعتراض بھی نہیں کیا جا سکتا۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب