صدقہ فطر واجب ہے یا سنت؟ مقدار، وقت اور ادائیگی کا تفصیلی حکم
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ، ج1، ص565

سوال

کیا صدقۂ فطر واجب ہے یا سنت ہے اور اسے کب ادا کرنا چاہیے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صدقۂ فطر یا زکاۃ الفطر وہ صدقہ ہے جو ماہِ رمضان کے اختتام پر واجب ہوتا ہے۔ یہ غلام، آزاد، مرد، عورت، چھوٹے اور بڑے ہر مسلمان فرد پر لازم ہے۔

السید محمد سابق المصری رقم فرماتے ہیں:
وهي واجبة على كل فرد من المسلمين، صغير أو كبير، ذكر أو أنثى، حر أو عبد

اس کے وجوب کی دلیل یہ حدیث ہے:

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: «فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ الفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ عَلَى العَبْدِ وَالحُرِّ، وَالذَّكَرِ وَالأُنْثَى، وَالصَّغِيرِ وَالكَبِيرِ مِنَ المُسْلِمِينَ، وَأَمَرَ بِهَا أَنْ تُؤَدَّى قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إِلَى الصَّلاَةِ
(صحیح بخاری، باب فرض صدقة الفطر)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقۂ فطر کھجور کا ایک صاع یا جو کا ایک صاع فرض فرمایا۔ یہ غلام اور آزاد، مرد اور عورت اور چھوٹے اور بڑے ہر مسلمان کی طرف سے ہے، اور عید الفطر کی نماز کے لئے جانے سے پہلے اس کی ادائیگی کا حکم دیا۔

امام ابو العالیہ، امام عطاء اور امام محمد بن سیرین کے نزدیک بھی صدقۂ فطر فرض ہے۔

مقدارِ صدقہ فطر

ہر جنس میں ایک صاع فرض ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے:

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: «كُنَّا نُعْطِيهَا فِي زَمَانِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَاعًا مِنْ طَعَامٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ زَبِيبٍ»، فَلَمَّا جَاءَ مُعَاوِيَةُ وَجَاءَتِ السَّمْرَاءُ، قَالَ: «أُرَى مُدًّا مِنْ هَذَا يَعْدِلُ مُدَّيْنِ»
(صحیح البخاری، باب صاع من زبیب، ج۱ص۲۰۴)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک صاع گندم، ایک صاع کھجور، ایک صاع جو یا ایک صاع کشمش ادا کیا کرتے تھے۔ جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ مدینہ تشریف لائے اور گندم بکثرت آنے لگی تو انہوں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ ایک مد گندم دوسرے اجناس کے دو مد کے برابر ہے۔

چنانچہ لوگوں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے اس اجتہاد پر عمل شروع کر دیا۔ مگر حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
فأما أنا، فلا أزال أخرجه أبدا ما عشت (رواه الجماعة)

امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
بعض اہل علم ہر جنس میں پورا ایک صاع ہی لازم سمجھتے ہیں۔ یہ قول امام شافعی اور امام اسحاق بن راہویہ کا بھی ہے۔ (فقہ السنة ج۱ص۲۴۹، تحفة الاحوذی ج۲ص۲۷)

یہی رائے حدیث صحیح کے قریب اور زیادہ درست ہے۔ گندم کے نصف صاع کے جواز میں اگرچہ کچھ روایات موجود ہیں لیکن ان کی اسناد مضبوط نہیں ہیں۔

گندم کے نصف صاع کا مسئلہ

چونکہ گندم مدینہ کی پیداوار نہیں تھی بلکہ باہر سے درآمد کی جاتی تھی، اس لیے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اضافی اخراجات کے پیش نظر نصف صاع گندم کو کافی قرار دیا۔

لیکن ہمارے علاقوں میں صورت مختلف ہے، یہاں گندم کثرت سے اور کم قیمت میں پائی جاتی ہے۔ لہٰذا یہاں نصف صاع گندم دینا غیر معقول ہے۔ اگر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے اجتہاد پر عمل کرنا ہی ہو تو کھجور یا کشمش جیسی درآمدی چیزوں کا نصف صاع دینا چاہیے۔ لیکن حقیقی سلامتی صرف اتباعِ رسول ﷺ میں ہے۔

صاع نبوی کی تحقیق

◈ صاع نبوی (صاع ابن ابی ذئب) کی مقدار: پانچ رطل اور ایک تہائی رطل
◈ انگریزی اوزان کے مطابق: ۲ سیر، ۱۰ چھٹانک، ۴ ماشہ
◈ اعشاری نظام کے مطابق: ۲.۵ کلوگرام

لہٰذا ہر جنس میں فی کس اڑھائی کلوگرام صدقۂ فطر ادا کرنا لازم ہے۔

رقم یا نقدی کی صورت میں ادائیگی

اگر کوئی شخص غلے کے بجائے نقدی دینا چاہے تو اسے اپنی خوراک کے مطابق قیمت ادا کرنی ہوگی۔

◈ مثال: اگر آٹا ۵ روپے فی کلو ہے تو فی کس ۲.۵ کلو کے حساب سے ۱۲.۵ روپے ادا کرنے ہوں گے۔
◈ اگر کھانے میں کبھی چاول بھی شامل ہوں، اور وہ ۱۹ روپے کلو ملتے ہوں تو احتیاطاً فی کس ۳۰ روپے ادا کرنا بہتر ہے۔
◈ اگر کوئی شخص صرف آٹے کی قیمت دے تو بھی جائز ہے، کیونکہ احادیث میں اس کی تفصیل نہیں آئی کہ دونوں وقتوں کی غذاؤں کو شامل کیا جائے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے