چند مسنون دوائیں اور ان کے خواص
اثمد (سرمہ)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے سرموں میں سب سے بہترین سرمہ اثمد ہے جو بصارت کو جلا بخشتا ہے اور پلکوں کے بالوں کو بھاری کرتا ہے۔“ [سنن ابن ماجہ، ح: 3497]
خواص:
اثمد سیاہ سرمہ کا ایک پتھر ہوتا ہے جو ایران کے علاوہ دوسرے کئی ممالک سے بھی حاصل کیا جاتا ہے۔ اثمد کی اعلیٰ قسم وہ ہے جو بہت جلد ریزہ ریزہ ہو جائے اور اس کےریزوں میں چمک ہو اور اس کا اندرونی حصہ چکنا ہو اور گرد و غبار سے پاک ہو۔
اثمد سرد خشک ہے، آنکھ کو قوت بخشتا ہے اور آنکھ کے پٹھے مضبوط کرتا ہے، زائد رطوبات کو ختم کرتا ہے اور گرد و غبار اور آنکھ کی میل کو دور کرتا ہے۔ نظر کو تیز کرتا ہے اور اگر مائع شہد کے ساتھ ملا کر آنکھ میں ڈالیں تو سر درد میں افاقہ ہوگا۔ چربی کے ساتھ پیس کر حل کر کے جلے ہوئے مقام پر لگائیں تو زخم میں اکڑاؤ نہیں آنے دیتا۔ بڑھاپے کی لاٹھی ہے۔ کستوری کے ساتھ ملا کر ضعف بصر میں استعمال بے حد مفید ہے۔ رات کو سوتے وقت تین تین سلائیاں دونوں آنکھوں میں لگائیں۔ عرق گلاب میں کھرل کر کے خوب باریک
کر کے استعمال میں لانا از حد مفید ہے۔ [ زاد المعاد، ج 4، ص: 483]
ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک عورت کے شوہر کا انتقال ہو گیا (زمانہ عدت میں) اس عورت کی آنکھ دکھنے لگی تو لوگوں نے اس کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ان لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سرمہ کا ذکر کیا۔
تشریح:
مولانا داؤد راز دہلوی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی تشریح میں لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عدت کی وجہ سے آشوب چشم میں سرمہ لگانے کی اجازت نہیں دی اگر عدت نہ ہوتی تو آپ درد چشم میں سرمہ لگانے کی اجازت دیتے۔ [صحيح بخاري از مولانا داؤد راز دهلوي ص 292 ج: 7]
بکرے کی ران
سنن ابن ماجہ میں محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی ہے: کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ عرق النساء کا علاج (یہ ہے کہ) جنگلی بکرے کی ران کو پکا کر گلایا جائے پھر اس کی یخنی تین حصوں میں کر دی جائے اس کے بعد تین دن تک یخنی کا استعمال نہار منہ کیا جائے (یاد رکھیں) روزانہ نہار منہ ہونا چاہیے۔
ابن ماجہ نے حدیث نمبر 3463 فی الطب میں باب دواء عرق النساء کے تحت اسے ذکر کیا ہے، اس کے رجال ثقہ ہیں اور بوصیری نے زوائد 1/216 میں لکھا ہے کہ اس کی اسناد صحیح ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کی دو قسمیں ہیں: ان میں سے ایک عام زمانہ، مقام، اشخاص اور حالات کے پیش نظر ہے جب کہ دوسری مخصوص ہے جن میں ان امور کی یا بعض امور کی رعایت ہے اور یہ اسی قسم میں شامل ہے۔ اس لیے کہ اس کے مخاطب اہل عرب اہل حجاز اور اس کے اردگرد کے رہنے والے ہیں، بالخصوص دیہات کے اکھڑ لوگ۔ اس لیے کہ یہ علاج ان بدوی لوگوں کے لیے سب سے زیادہ مفید ہے کیوں کہ عموما یہ بیماری خشکی کی بنا پر پیدا ہوتی ہے، اور کبھی اس کا سبب گاڑھا لیس دار مادہ ہوتا ہے جس کا علاج اسہال ہے۔ اور ران کے گوشت میں دو خاصیتیں مادہ کو پکانا اور اسے نکالنا پائی جاتی ہیں اور اس مرض میں ان دونوں چیزوں کی ضرورت ہے۔ اور جنگلی بکرے کا تعین اس وجہ سے ہے کہ اس میں فضولات (زوائد) کی کمی اور مقدار کا اختصار اور جوہر کی لطافت موجود ہے۔ اس لیے کہ یہ بکریاں جو چیزیں چرتی ہیں ان میں گرم قسم کی جڑی بوٹیاں ہوتی ہیں اور یہ نباتات جب کسی جانور کو بطور غذا دی جائیں گی تو ان کے گوشت میں بھی وہ لطیف اجزاء پیدا ہوں گے جن کو غذا کے ساتھ شامل رکھا گیا ہے بلکہ معدہ میں حل ہونے اور جسم کی غذا بن جانے کے بعد اس میں اور بھی زیادہ لطافت پیدا ہو جائے گی بالخصوص سرین (پٹھ) کے گوشت میں ان نباتات کا اثر گوشت سے زیادہ قوی انداز میں بلکہ ان کے دودھ میں بھی یہی اثر دیکھا جاتا ہے۔ مگر سرین (پٹھ) کے گوشت میں پکانے اور نکالنے کی جو خصوصیت پائی جاتی ہے وہ دودھ میں نہیں دیکھی جاتی۔ [ طب نبوی ص:101 تا 103]
(ڈاکٹر عادل ازھری نے لکھا ہے کہ عرق النساء کا مرض نر و مادہ کو یکساں ہوتا ہے۔ اس میں عورت مرد کی کوئی تخصیص نہیں مگر اس کی تکلیف شدت میں غیر معمولی ہوتی ہے۔ ریڑھ کی ہڈی کے زیریں حصے سے یہ بیماری شروع ہوتی ہے پھر درد سرین کی جانب بڑھتا ہے پھر ران کا پچھلا حصہ متاثر ہوتا ہے، کبھی اچانک ٹخنوں تک اس کا اثر ہو جاتا ہے، آخر میں مہروں کے درمیان پائی جانے والی نرم ہڈیوں کا جڑاؤ ختم ہو جاتا ہے، یا پٹھوں میں گرمی پیدا ہو جاتی ہے، اس کا علاج یہ ہے کہ مریض کو دو ہفتہ بستر پر مکمل آرام دیا جائے اور درد شکن اور درد دور کرنے والی دوائیں دی جائیں۔ اسپرین وغیرہ یا داغ سے افاقہ ہو جاتا ہے اور مریض کو سکون ملتا ہے۔)
پانی
صحیح بخاری و مسلم میں امام نافع رحمہ اللہ نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”بخار یا تیزی بخار جہنم کی لپیٹ ہے، اسے سرد کر دو پانی کے ذریعہ چھینٹے، وضو غسل کسی بھی طریقے سے۔“
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی بیٹھ کر پینے اور تین سانسوں میں پینے کی ہدایت کی اور فرمایا کہ یہ خوشگوار، رگوں کو سیراب کرنے والا اور زود ہضم ہوتا ہے۔ [صحيح مسلم: 2028، ابن حبان:5330، احمد: 185/3,119/3,118/3 ترمذي: 1884]
خواص:
یہ زندگی کا مادہ اور مشروبات کا سردار ہے، عناصر اربعہ میں سے ایک بلکہ اس کا اصل رکن ہے۔ اس لیے کہ آسمان اس کے بخار سے پیدا کیے گئے ہیں اور زمین کی تخلیق اس کی جھاگ سے عمل میں آئی اور جاندار چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے پانی ہی سے بنایا ہے۔
پانی کے بارے میں اختلاف ہے کہ یہ غذا کا کام کرتا ہے یا صرف غذا کے نفوذ کا ذریعہ ہے؟ پانی سرد تر ہوتا ہے حرارت کو ختم کرتا ہے بدن کی رطوبات کا محافظ ہے۔ اور جو رطوبات تحلیل ہو جاتی ہیں ان کی تلافی کرتا ہے، غذا کو لطیف بناتا ہے اور اس کو بدن کی رگوں
میں پہنچاتا ہے۔
پانی کی خوبی دس طریقوں سے معلوم کی جاتی ہے:
● رنگ دیکھ کر خوبی معلوم کی جاتی ہے کہ وہ صاف ستھرا ہے۔
● بو سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں کوئی دوسری بو نہیں ہونی چاہیے۔
● دعا، دوا اور دم سے نبوی طریقہ علاج
● ذائقہ سے معلوم پڑتا ہے کہ وہ شیریں اور لذیذ ہو جیسے نیل اور فرات کا پانی ہوتا ہے۔
● اس کے وزن سے جان لیا جاتا ہے کہ وہ ہلکا ہو اور اس کا قوام لطیف ہو۔
● اس کی خوبی اس کی گزرگاہ سے معلوم ہوتی ہے کہ اس کا راستہ اور گزرگاہ عمدہ ہے۔
● منبع سے کہ اس کے پانی نکلنے کی جگہ دور ہے۔
● دھوپ اور ہوا کے اس پر گزرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ زمین دوز نہ ہو کہ جہاںدھوپ اور ہوا کا گزر نہ ہو سکے۔
● اس کی حرکت سے کہ وہ تیزی کے ساتھ بہتا ہے۔
● اس کی کثرت سے معلوم کیا جاتا ہے کہ وہ اتنا زیادہ ہو کہ جو فضلات اس سے ملےہوئے ہوں ان کو دور کر سکے۔
● اس کے بہاؤ کے رخ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شمال سے جنوب کی طرف یا مغربسے مشرق کی جانب جاری ہو۔
اگر ان خوبیوں کو دیکھا جائے تو یہ پورے طور پر صرف چار ہی دریاؤں میں پائی جاتی ہیں، دریائے نیل، دریائے فرات سیحون اور جیجون۔
صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
سیحون ، جیحون، نیل اور فرات سب جنت کے دریاؤں میں سے ہیں۔
امام مسلم نے 2839 میں ”كتاب الجنة وصفة نعيمها “ کے باب ”ما في الدنيا من انهارالجنة“ کے تحت ذکر کیا ہے۔
پانی کے ہلکے ہونے کا اندازہ تین طریقے سے کیا جاتا ہے:
● پانی سردی اور گرمی سے بہت متاثر ہو اور ان کو بہت جلد قبول کر لے، چناں چہ بقراط حکیم کا بیان ہے کہ جو پانی جلد گرم اور جلد ٹھنڈا ہو جائے وہی سب سے ہلکا ہوتا ہے۔
● میزان سے اس کا اندازہ کیا جاتا ہے۔
● مختلف قسم کے پانیوں میں دو ہم وزن روئی کے پھائے بھگوئے جائیں، پھر ان کو پورے طور پر خشک کر کے وزن کیا جائے تو جو سب سے ہلکا ہوگا اس کا پانی بھی اسیطرح ہلکا ہوگا۔
پانی اگر چہ حقیقتا سرد تر ہے، مگر اس کی قوت کسی ایسے عارضی سبب سے متغیر و منتقل ہوتی رہتی ہے جو اس کے تغیر کا موجب بنتا ہے۔ اس لیے کہ جس پانی کا شمالی حصہ کھلا ہو اور دوسرا حصہ چھپا ہوا ہو وہ ٹھنڈا ہوتا ہے، اور اس میں معمولی خشکی ہوتی ہے جو شمالی ہوا کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اسی طرح دوسری سمتوں کے پانی کا حکم ہے۔
کان سے نکلنے والا پانی
یہ پانی اس کان کی طبیعت کے مطابق ہوگا اور اسے پینے سے اسی انداز کا اثر بدن پر نمایاں ہوگا، شیریں پانی مریضوں اور تندرست لوگوں کے لیے مفید ہے۔ ٹھنڈا اور شیریں پانی زیادہ مفید اور لذیذ ہوتا ہے۔ اس کو نہار منہ، جماع کرنے اور تازہ پھل کھانے کے بعد پینا مناسب نہیں۔
البتہ اگر پانی کی چسکی لے تو یہ کبھی بھی نقصان نہیں کرے گا بلکہ معدہ کو تقویت بخشے گا، شہوت کو ابھارے گا اور تشنگی ختم کرے گا۔
نیم گرم پانی
نیم گرم پانی اپھارہ پیدا کرتا ہے اور مذکورہ فوائد کے برخلاف اثرات دکھلاتا ہے۔ باسی نیم گرم پانی تازہ سے عمدہ ہوتا ہے۔ اور آب سرد کا اندرونی طور پر استعمال اس کے خارجی طور پر استعمال کرنے کے مقابل زیادہ نافع ہے، اور گرم اس کے برعکس ہوتا ہے۔ ٹھنڈا پانی خرابی خون میں زیادہ نافع ہے۔ اسی طرح بخارات کو سر کی طرف جانے سے روکتا ہے اور خون کی خرابی سے بچاتا ہے، یہ گرم مزاج، گرم مقام و موسم اور جوان عمر لوگوں کے لیے موزوں ہوتا ہے اور نضج اور تحلیل(نضج کا معنی مادہ کو پکانا اور تحلیل کا معنی ہے اسے جسم میں حل کر دینا۔) کی ضرورت میں بہر صورت نقصان دہ ہوتا ہے جیسے زکام، ورم وغیرہ اور بہت زیادہ ٹھنڈا پانی دانتوں کو نقصان پہنچاتا ہے اور ایسے پانی کا بکثرت استعمال خون کو پھاڑتا ہے اور نزلے کو حرکت دیتا ہے۔
ٹھنڈا پانی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ”بخار جہنم کے جوش سے ہے اسے پانی سے ٹھنڈا کر و۔“ [صحيح بخاري، ح:5723]
بخار میں مبتلا کوئی عورت جب حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کے پاس لائی جاتی تو وہ اس کے سینے پر پانی چھڑکتیں اور فرماتیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں بخار کو پانی سے ٹھنڈا کرنے کا حکم دیتے تھے۔ [ صحيح بخاري، ح:5723]
بہت زیادہ ٹھنڈا یا گرم پانی
دونوں اعصاب اور اکثر اعضاء جسمانی کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس لیے کہ ان میں سے ایک محلل (تحلیل کرنے والا) ہے اور دوسرا مادہ کو گاڑھا کرتا ہے، گرم پانی سے اخلاط ردیہ(قدیم اطباء کے نزدیک خون، بلغم صفراء اور سوداء کو اخلاط الجسد کہتے ہیں۔) کی سوزش ختم ہو جاتی ہے۔ یہ نضج و تحلیل کا کام کرتا ہے۔ رطوبات ردیہ (زائد مادوں) کو نکال پھینکتا ہے۔ بدن کو شاداب بناتا ہے اور اس میں گرمی پیدا کرتا ہے اس کے پینے سے ہاضمہ خراب ہوتا ہے۔ غذا کے ساتھ استعمال کرنے سے یہ معدہ کی بالائی سطح پر تیرتا رہتا ہے اور اسے ڈھیلا کرتا ہے تشنگی دور کرنے میں بھی زیادہ عمدہ نہیں ہے۔ بدن کو لاغر بنانے کے لیے گرم پانی مناسب ہے۔ جب کہ خارجی طور پر اس کا استعمال بہت زیادہ مفید ہے۔
آفات کی تمازت سے گرم شدہ پانی کے بارے میں کوئی حدیث یا اثر صحیح طور پر ثابت نہیں ہے۔ اور نہ قدیم اطباء میں سے اس کو کسی نے خراب سمجھا، اور نہ اس کو معیوب قرار دیا۔ ہے، امراض ردیہ کا نقیب ہے۔ اکثر امراض میں مضر ہے البتہ بوڑھوں کے لیے موزوں ہے۔ اسی طرح مرگی، سردی کی وجہ سے سر درد کے مریضوں اور آشوب چشم کے بیماروں کے بہت زیادہ مفید ہے۔ گرم پانی گردے کی چربی کو پگھلا دیتا ہے۔
الغرض! پانی میں بے شمار خوبیاں ہیں اس سے زندگی ہے بلکہ یہ زندگی ہے۔ کائنات کا اہم ترین رکن ہے، انسانی، حیوانی، نباتی زندگی اسی سے ہے، سرد تر لیکن حرارت کو جلد قبول کرنے والا ہے، بدن کی رطوبت کو محفوظ رکھتا ہے۔ غذا کو حل کرتا ہے اور رگوں میں نفوذ پذیر ہوتا ہے۔ مختلف زمان و مکان کے اعتبار سے اس کے فوائد و خواص بدلتے رہتے ہیں، قرآن میں بارش کے پانی کو مبارک پانی کہا گیا ہے، بعض دریاؤں کے پانی جنت سے قرار دیئے گئے۔ نہروں، دریاؤں سمندروں، کنوؤں، چشموں، بارش، اولوں، برف وغیرہ کے پانیوں کے خواص الگ الگ خاصیت کے بھی حامل ہوتے ہیں۔ [ زاد المعاد، ج: 4 ص: 388 تا394]
امام بخاری نے ایک باب یوں بیان کیا ہے کہ بخار دوزخ کی بھاپ سے ہے۔
نافع نے بیان کیا کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو جب بخار آتا تو یوں دعا کرتے: ”اے اللہ! ہم سے اس عذاب کو دور کر دے۔“
حرارت کی بنا پر دوزخ کو بھاپ سے تشبیہ دی گئی ہے۔ و صدق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ”بخار پر صبر کرنا ہی ثواب ہے “اور تندرسی میں کی گئی دعا اتنی ہی زیادہ پر اثر ہے۔ آنحضرت بکثرت دعا فرمایا کرتے تھے:
اللهم إني أسألك العفو والعافية
”اے اللہ! میں تجھ سے عافیت کا سوال کرتا ہوں۔“
ایک روایت میں ہے (بخار کو) زمزم کے پانی سے ٹھنڈا کرو۔ مراد وہ بخار ہے جو صفراء کے جوش سے ہو اس میں ٹھنڈے پانی سے نہانا یا ہاتھ پاؤں کا دھونا بھی مفید ہے۔ آج کی ڈاکٹری نے بھی تسلیم کر لیا ہے کہ شدید بخار میں برف کا استعمال بھی اسی قبیل سے ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بخار جہنم کی بھاپ میں سے ہے اس لیے اسے پانی سے ٹھنڈا کرو۔“
مروجہ ڈاکٹری کا ایک شعبہ علاج پانی سے بھی ہے۔ جو کافی ترقی پذیر ہے ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ پاک نے جمیع علوم نافعہ کا خزانہ بنا کر مبعوث فرمایا تھا۔ چناں چہ فن طبابت میں آپ کے پیش کردہ اصول اس قدر جامع ہیں کہ کوئی بھی عقل مند ان کی تردید
نہیں کر سکتا۔ [صحيح بخاري، از علامه داؤد راز ص: 300 ج: 7]
بخار کے علاج کے متعلق ہدایات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
صحیح بخاری و مسلم میں امام نافع رحمہ اللہ نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”بخار یا تیزی بخار جہنم کی لپیٹ ہے، اسے سرد کر دو پانی کے ذریعہ چھینٹے، وضو غسلکسی بھی طریقے سے۔“
(بخاری نے 146/10 ”کتاب الطب“ میں جہاں باب قائم کیا ہے ”بخار جہنم کی بھاپ ہے“ وہاں اسے ذکر کیا ہے اور مسلم نے حدیث نمبر 2209” فی السلام بذیل باب “ہر بیماری کے لیے دوا ہے میں ذکر کیا ہے، بعض طبیبوں کا کہنا ہے کہ بخار کی ہر صورت میں جب حرارت بہت بڑھ جائے تو پانی سے دو طرح کا علاج کرتے ہیں۔ پہلا طریقہ برف سے یا پانی سے خارجی طور پر سینک کرنا تا کہ درجہ حرارت نیچے آجائے، دوسرا طریقہ علاج یہ ہے کہ منہ سے پانی بار بار پلایا جائے کہ اس سے تمام اعضاء جسمانی کو بلخصوص گردوں کو اپنے اپنے کام پر لگایا جائے کہ وہ جسم کی توانائی کے لیے کچھ نہ کچھ کریں۔)
بخار سے بدن کو بڑا نفع بھی پہنچتا ہے جو کسی دوا سے نہیں ہوتا، عموما اس قسم کا نفع بخش بخار ایک دن کا بخار ہوتا ہے۔ان بخاروں سے ایسے سدے کھل جاتے ہیں جو انتڑیوں میں دواؤں کے ذریعہ نہیں کھلتے، غرض جہاں بخار قابل تشویش ہے وہاں نافع بھی ہے۔ آشوب چشم نیا ہو یا پرانا، ان بخاروں سے ایسا غائب ہوتا ہے کہ عقل قاصر رہتی ہے کہ یہ کیسے ہوا؟ اسی طرح بخار، فالج، لقوہ اور شیخ امتلائی (جس بیماری میں عضلات میں کھنچاؤ آ جائے) سے بھی نجات کا سبب ہوتا ہے۔
بخار کے علاج کے سلسلے میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت مرفوعہ ابونعیم رحمہ اللہ نے بیان کی ہے کہ:
”جب تم میں سے کوئی بخار زدہ ہو تو مبتلائے بخار پر ٹھنڈے پانی کی چھینٹ دی جائے تین دن تک صبح کے وقت سویرے سویرے۔“
(حاکم نے مستدرک 200/4 میں ذکر کیا ہے اس کی تصحیح اور موافقت ذہبی نے کی ہے اور بالکل ایسے ہی جیسے کہ ان دونوں نے تصحیح کی ہے، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ اس کی سند قوی ہے، اور ضیاء المقدسی نے مختارہ میں ذکر کیا ہے اور ہیثمی نے مجمع 94/5 میں طبرانی کی طرف اس کو منسوب کیا ہے۔ اور کہا کہ اس کے تمام رجال ثقہ ہیں۔)
دوسری جگہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً یہ روایت سنن ابن ماجہ میں مذکور ہے:
بخار جہنم کی بھٹیوں میں سے ایک بھٹی ہے اسے دور کر دو ٹھنڈے پانی سے۔ [طب نبوي، ص: 43 تا 49]
(ابن ماجہ نے حدیث نمبر 3475 کے تحت بیان کیا ہے اور اس کے رواۃ کو ثقہ قرار دیا ہے، اور بوصیری نے اپنی زوائد میں اس کی اسناد کو صحیح اور رجال کو ثقات لکھا ہے۔)
باسی پانی
سیدنا حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری صحابی کے یہاں تشریف لے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے ایک ساتھی (ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ) بھی تھے۔ آپ نے فرمایا: ”تمہارے ہاں اسی رات کا باسی پانی کسی مشکیزے میں رکھا ہوا ہو (تو ہمیں پلاؤ) ورنہ ہم منہ لگا کے پانی پی لیں گے، وہ صحابی اپنے باغ کو پانی دے رہے تھے تو انہوں نے بتایا کہ اے اللہ کے رسول! میرے یہاں رات کا باسی پانی موجود ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چھپر تلے تشریف لے جائیں۔ چناں چہ انہوں نے ان دونوں مہمانوں کو ساتھ لیا اور ایک پیالہ میں پانی لیا اور اپنی ایک بکری کا دودھ اس میں نکالا، جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیا اور آپ کے ساتھی ابو بکر رضی اللہ عنہ نے پیا۔ [صحیح بخاری، ح: 5713]
برف اور اولوں کا پانی
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت مذکور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے استفتاح میں یہ دعا فرماتے تھے:
”اے اللہ! مجھے گناہوں سے برف اور اولے کے پانی کے ذریعہ دھو دے۔“
برف میں ایک دخانی (دھویں جیسی) کیفیت و مادہ موجود ہے اور اس کا پانی بھی اسی کیفیت کا ہوتا ہے۔ برف کے پانی سے گناہوں کو دھونے کی درخواست کرنے میں ایک حکمت مضمر ہے اس کا بیان پہلے ہو چکا ہے کہ اس سے دل میں ٹھنڈک، مضبوطی اور تقویت تینوں چیزیں حاصل ہوتی ہیں اور اس سے دلوں اور جسموں کے علاج بالغہ کی حقیقت منکشف ہو جاتی ہے اور بخوبی یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ بیماریوں کا علاج اس کے اضداد (مخالف مزاج) سے کس طرح کرنا چاہیے۔
اولے کا پانی برف کے مقابل زیادہ لذیذ اور لطیف ہوتا ہے لیکن بستہ اور منجمد پانی تو وہ جیسا ہو گا اسی حساب سے اس کی خوبیاں ہوں گی اور برف جن پہاڑوں یا زمینوں پر گرتی ہے ان کی کیفیت سے ان میں اچھائی اور خرابی پیدا ہوتی ہے۔ حمام و جماع اور ورزش اور گرم کھانا کھانے کے بعد برف کا پانی پینے سے سختی سے پر ہیز کرنا چاہئے۔ اسی طرح کھانسی کے مریضوں، سینے کے درد سے متاثر اور ضعف جگر کے مریضوں اور سرد مزاج کے لوگوں کو اس سے پر ہیز کرنا چاہیے۔
کنویں اور نالیوں کا پانی
کنویں کا پانی بہت کم لطیف ہوتا ہے اور زمین دوز نالوں کا پانی ثقیل ہوتا ہے۔ اس لیے کہ کنویں کا پانی گھرا ہوا ہوتا ہے جس میں تعفن کا امکان ہوتا ہے اور نالوں کے پانی پر ہوا کا گزر نہیں ہوتا اس کو نکال کر فوراً پینا چاہیے۔ بلکہ تھوڑی دیر رکھ دیا جائے تا کہ ہوا اپنا کام کر جائے اور اگر ایک رات گزرنے کے بعد اس کو استعمال کریں تو اور بہتر ہے۔ اور جس پانی کا گزر سخت زمین سے ہو یا غیر مستعمل کنویں کا پانی ہو وہ سب سے خراب ہوتا ہے بالخصوص جب اس کی مٹی بھی خراب ہو تو اور بھی زیادہ خراب اور دیر سے ہضم ہوتا ہے۔
تربوز
تربوز کو عربی میں بطیخ کہتے ہیں۔ تربوز عرب میں بھی ہوتا تھا۔ ہمارے یہاں پاک و ہند میں یہ عام پایا جاتا ہے گرمیوں کا یہ ایک مفید پھل ہے، جس میں میٹھا میٹھا رس گرمی دور کرتا اور پیاس بجھاتا ہے۔
اس کے بیجوں کو پیس کر ان میں پانی اور میٹھا ملا کر طاقت مہیا کرنے والا اور پیاس دور کرنے والا مشروب بنایا جاتا ہے۔ تربوز کھانے سے پیشاب کھل کر آتا ہے، اس لیے یہ مثانے کو بھی کسی حد تک صاف کرتا ہے۔ البتہ یہ بادی ہوتا ہے۔ کاٹ کر تازہ تازہ کھا لیں تو بہتر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کھجور اور تربوز ملا کر کھاتے اور فرماتے:
نكسر حر هذا ببرد هذا وبرد هذا بحر هذا.
اس کی ٹھنڈک (تربوز کی) اس (کھجور) کی گرمی کو زائل کر دیتی ہے اور اس (کھجور) کی گرمی اس (تربوز) کی ٹھنڈک کو مار دیتی ہے۔
[ابوداؤد، كتاب الاطعمة: 3836، ابنِ حبان: 5246، ترمذي: 1843]
(ماخوذ از وہ خوش قسمت کھانے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھائے‘ام عبد المنیب)
جَو اور چقندر
جَو کو عربی میں سویق کہتے ہیں جَو کو پیسنا یا کوٹنا گندم کی نسبت مشکل ہوتا ہے اسے چبانا بھی مشکل ہوتا ہے۔ اہلِ عرب کی اس دور میں عمومی غذا تھی، اسے عام لوگ پانی میں بھگو کر کھاتے، جو کو بھننے کے بعد بھی اس کا چھلکا آٹے میں موجود رہتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں چھلنی کم استعمال کی جاتی تھی۔ ابو حازم نے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے سوال کیا! کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گندم کے میدے کی روٹی کھائی ہے؟ انہوں نے جواب دیا نہیں، دیکھی تک نہیں۔ ابو حازم نے پوچھا، کیا اس وقت چھلنیاں ہوتی تھیں؟ جواب ملا نہیں، انہوں نے پھر پوچھا، ان چھنے جو کی روٹی کیسے کھاتے تھے؟ سہل بن سعد نے کہا: آٹے کو پھونک مارتے جو (چھلکے) اڑ جاتے سو اڑ جاتے، باقی جیسا کیسا ہوتا بھگو کر استعمال میں لے آتے۔ [صحيح بخاري، كتاب الاطعمة:5413]
میدے اور چھنے ہوئے آٹے کی روٹی کے حیاتین ضائع ہو جاتے ہیں جب کہ موٹا اور ان چھنا آٹا صحت کے لیے مفید ہوتا ہے، ایک مغربی ڈاکٹر ہیڈلے پچیس سال تک ایک ایسے مقام پر رہا جہاں ان چھنے آٹے کی روٹی کھائی جاتی تھی، اس نے مشاہدہ کیا کہ یہاں کے باشندوں کو زخم معدہ، آنتوں کا زخم، قولنج، پتے کی پتھری اور سرطان جیسے مرض لاحق نہیں ہوتے۔
دور حاضر میں ڈاکٹر اور حکیم معدے، آنتیں، قولنج اور پتھری والے مریضوں کو یہ تاکید کرتے ہیں کہ وہ موٹے آٹے اور ان چھنے آٹے کی روٹی کھایئں۔
آٹا چھاننا بجائے خود ایک تکلف ہے جس کے لیے چھلنی بھی درکار ہوتی ہے نیز ایک مسلمان کو اللہ تعالیٰ کی نعمت کے ہر جزء سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ نیز آٹا چھان کر بھوسہ الگ کر دینا غرور کی علامت اور نازک مزاج امراء کا طریقہ ہے۔ مزاج میں سادگی پیدا کرنے کے لیے ان چھنا آٹا ہی بہتر ہے۔
ابوسعید مقبری بیان کرتے ہیں، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ایسے لوگوں کے پاس سے گزرے جن کے سامنے بھنی ہوئی بکری رکھی تھی، انہوں نے آپ کو کھانے کی دعوت دی تو آپ نے کھانے سے انکار کر دیا اور کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے تشریف لے گئے اس حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کی روٹی بھی پیٹ بھر کر نہیں کھائی۔ [بخاري، كتاب الاطعمة، ح: 5414]
اس سے پتا چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا اور دنیا کی چیزوں سے پیٹ یا گھر بھرنے کی رغبت نہیں تھی، ضرورت کے وقت ان کا استعمال کر لیتے۔
اسی طرح چقندر کو عربی میں سلق کہتے ہیں۔ یہ شلجم اور مولی کی طرح جڑ ہے جو سبزی کے طور پر کھائی جاتی ہے، اس کا ذائقہ مولی کے ذائقے سے مشابہ، ساخت شلجم کے مشابہ اور رنگ گہرا جامنی آتشی عنابی ہوتا ہے۔ اسے کاٹ کر کچا بھی کھایا جاتا ہے اور پکا کر بھی۔ اس میں فولاد (کیلشیم) وافر مقدار میں ہوتا ہے۔ اس میں خون پیدا کرنے والے اجزاء شامل ہوتے ہیں۔ یہ دماغ کو تقویت دیتا ہے۔ بلغمی مزاج والوں کے لیے خاص طور پر مفید ہے۔ آیئے دیکھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کھانے میں چقندر کے شامل ہونے کا ذکر کس حوالے سے آیا ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ چقندر مدینہ منورہ کی عمومی پیداوار تھی۔ چنانچہ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک بڑھیا چقندر کی جڑیں پکایا کرتی تھی وہ اس پر جو کا آٹا چھڑک دیتی نہایت لذیذ ہوتا تھا۔ ہم جمعہ کی نماز پڑھ کر واپس آتے تو راستے میں اس کے ہاں یہ کھانا کھانے کے لیے رک جاتے۔ [صحيح بخاري: 938]
(ماخوذ از وہ خوش قسمت کھانے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھائے‘ ام عبد المنیب)
زمزم
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”زمزم جس مقصد (جس بیماری سے شفا) کے لیے بھی پیا جائے تو وہ اس کے لیے ہے۔“ [سنن ابن ماجہ، ح: 3062]
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ زمزم بطور کھانا بھی مفید ہے، وہ بتاتے ہیں، میں تیس دن رات مسجد حرام میں رہا، یہی میری غذا رہی حتی کہ میں موٹا ہو گیا۔ [صحيح مسلم، ح:2473]
خواص:
یہ دنیا میں موجود مختلف پانیوں میں بلند مرتبہ اور مبارک ترین پانی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام اس پانی کو اپنے ساتھ بھر کر لے جایا کرتے تھے۔ پیاس کے ساتھ ساتھ بھوک میں بھی منفعت بخش ہے۔ ضرب جبرئیل کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے اسماعیل علیہ السلام کی پیاس بجھانے کے لیے زمین سے نکالا اور قیامت تک جاری رہنے والا بنا دیا۔ امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے خود بہت سے تجربات اس پانی پر کیے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ لوگوں نے کئی روز تک صرف زمزم پر ہی گزر بسر کی اور اس کے سوا کوئی کھانا نہیں کھایا تو وہ ہمارے ساتھ ہی طواف کرتے اور بھوک محسوس نہیں کرتے تھے بلکہ اس کی قوت سے حقوق زوجیت ادا کرنے پر بھی قادر رہے اور روزے بھی ان کو کمزور نہ کر سکے۔ [زاد المعاد، ج 4، ص: 393 و 392]
آب زمزم تمام پانیوں کا سردار، سب سے اعلیٰ، سب سے بہتر اور قابل احترام ہے۔ لوگوں کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ، سب سے زیادہ بیش بہا اور سب سے نفیس پانی ہے، یہ جبرئیل علیہ السلام کے پیر مارنے سے پیدا ہوا اور یہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی سیرابی کا
ذریعہ بنا۔
صحیح بخاری میں مرفوعاً حدیث مروی ہے کہ ابوذر رضی اللہ عنہ جو کعبہ اور اس کے پردوں کے درمیان چالیس دن تک رہے اور ان کے پاس کھانے پینے کے لیے کچھ بھی نہ تھا۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ یہ (آب زمزم) مزیدار کھانا ہے اور امام مسلم کے علاوہ دوسروں نے اپنی سند سے اس میں اتنا اضافہ کیا کہ یہ پانی بیماری کے لیے شفاء ہے۔ [طب نبوي ص 501]
پیلو
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کالے پیلو استعمال کیا کرو (صحت کے لیے اچھے ہیں۔) [صحيح مسلم، ح: 2050]
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ہم مقام مر الظہران پر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیلو توڑ رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”پیلو وہ توڑنا ہے جو خوب کالا ہو کیوں کہ وہ زیادہ لذیذ ہوتا ہے۔“ [صحيح بخاري، ح:5453]
خواص:
یہ میں چالیس فٹ اونچا درخت ہوتا ہے۔ اس کا تنا خم دار شاخیں پھیلی اور جھکی ہوئی ہوتی ہیں، اسے عربی میں اراک اور کبات بھی کہا جاتا ہے۔اس کا پھل کالا سیاہ اور گہرے سرخ رنگ کا جسامت میں گول ہوتا ہے جو خشک کر کے محفوظ بھی کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں دست بند کرنے، ورم دور کرنے اور کوڑھ کے مرض سے شفا کے اثرات رکھے ہیں۔
درخت پیلو کے پھل زیادہ تر حجاز کے علاقے میں پائے جاتے ہیں، اس کا مزاج گرم خشک ہے، اس کے فوائد بہت ہیں، معدہ کے لیے مقوی ہے، ہاضمہ درست کرتا ہے، بلغم کو خارج کرتا ہے، پشت کے درد کو دور کرتا ہے اس کے علاوہ بھی بہت سی بیماریوں میں نافع ہے۔ اس کو اگر پیس کر پیا جائے تو پیشاب لاتا ہے، مثانہ صاف کرتا ہے، معدہ کو مضبوط اور پاخانہ کو سخت کرتا ہے۔ [ طب نبوی از ابن القیم ص: 469]
تلبینہ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ کسی کے ہاں مرگ ہو جاتی تو تلبینہ کی ہنڈیا چڑھا دی جاتی، پھر ثرید بنایا جاتا۔ تلبینہ مریض کے دل کو تسکین دیتا ہے اور افسردگی کو کم کرتا ہے۔ [ صحيح بخاري، ح: 5689]
خواص:
تلبینہ میٹھا دلیہ جو روٹی بھی اور میٹھا ملا کر پکایا جائے اسے حریرہ بھی کہتے ہیں۔ دودھ اور جو کے دلیے وغیرہ کا بالکل پتلا پکایا ہوا قوام ہے جس کے بہت سے فوائد حدیث میں مذکور ہیں۔ یہ غذا کے طور پر بالکل ہلکا ہوتا ہے، اس میں نقل نہیں پایا جاتا، بیماروں اور رنجیدہ لوگوں کے لیے زیادہ نفع بخش ہے۔ زود اثر اور حرارت غریزی پیدا کرتا ہے۔ نرم غذا ہونے کے ناطے زود ہضم اور معدہ پر ہلکا ہوتا ہے۔ [ زاد المعاد، ج 4، ص: 121,120]
چٹائی کی راکھ (زخم سے خون بند کرنے کا چٹکلہ)
غزوہ احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زخم آ گیا۔ خون نہیں رک رہا تھا تو ایسے میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے چٹائی جلا کر اس کی راکھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخم پر لگائی جس سے خون رک گیا۔ [ صحيح بخاري، ح:5722]
خواص
یہ نرکل کی قسم کا پانی میں پایا جانے والا ایک پودا ہے، جس سے آج کل مساجد کی صفیں وغیرہ بناتے ہیں اس میں چوسنے کا مادہ پایا جاتا ہے۔ اس کی راکھ میں امساک پایا جاتا ہے۔ خون روکنے کے لیے مفید ہے۔ اس راکھ کو اگر سرکے میں حل کر کے نکسیر کے مریض کے ناک میں ڈال دیں تو خون رک جائے گا۔ [ زاد المعاد، ج: 4، ص:49]
چرائتہ
ابن سنی نے اپنی کتاب میں بعض ازواج مطہرات سے یہ روایت نقل کی ہے:
”انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن میرے پاس تشریف لائے اس وقت میری انگلی میں دانہ نکلا ہوا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: کیا تمہارے پاس چرائتہ ہے؟ میں نے کہا: ہاں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس پر لگاؤ اور کہو: اے بڑے کو چھوٹا اور چھوٹے کو بڑا کرنے والے اللہ! مجھے جو چیز پیش آئی ہے اسے چھوٹا کر دے۔“
چرائتہ ایک ہندوستانی دوا ہے جو جڑ سے حاصل ہوتی ہے، اس کا مزاج گرم خشک ہے، معدہ و جگر کے امراض اور استسقاء کے لیے نافع ہے۔ اور اس کی خوشبو کی وجہ سے دل کو تقویت پہنچتی ہے۔ صحیحین میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
انھوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حجتہ الوداع کے موقع پر احرام باندھنے اور کھولنے کے وقت اپنے ہاتھ سے چرائتہ کی خوشبو لگائی۔
چھوٹا سا معمولی پھوڑا پھنسی جو جسم میں دافع طبیعت کے قوی ہونے سے پیدا ہوتا ہے۔ جہاں دافع کے زور سے پھنسی نکلنے والی ہوتی ہے وہاں کی جلد رقیق ہو جاتی ہے۔ اب نضج اور اخراج مادہ (اسے پکا کر نکالنے) کی ضرورت ہوتی ہے۔ چرائتہ سے یہ عمل بڑی جلدی تکمیل پذیر ہوتا ہے، اس لیے کہ چرائتہ میں خوشبو کے ساتھ مادہ کو پکانے اور اسے نکالنے کی بھی صلاحیت موجود ہے۔ جو اس مادہ میں موجود ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے صاحب” قانون“ بوعلی سینا اس خیال کا اظہار کرتا ہے کہ آگ سے جلنے کے بعد جو چیز سب سے زیادہ مفید ہوتی ہے وہ چرائتہ ہے جسے روغن گل اور سرکہ میں آمیز کر کے استعمال کیا جاتا ہے۔ [ طب نبوی ص: 152,150]
دودھ
قرآن مجید میں سورۃ النحل میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”تمہارے لیے چوپایوں میں بھی بڑی عبرت ہے کہ ہم تمہیں ان کے پیٹ میں جو کچھ ہے اس میں سے گوبر اور لہو کے درمیان سے خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لیے بڑا خوشگوار ہے۔“
اسی طرح جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر معراج پر تشریف لے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک پیالہ دودھ اور ایک پیالہ شراب پیش کی گئی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ کو پسند کیا اور شراب کے پیالہ کو نا پسند کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ آپ نے (دودھ پسند کر کے) فطرت کو پسند فرمایا، اگر آپ شراب لے لیتے تو آپ کی امت گمراہ ہو جاتی۔ [صحيح بخاري، ح: 3394]
صحیح بخاری ہی میں ایک اور روایت سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دودھ میں چکناہٹ ہوتی ہے۔ [ح:5609]
اسی دودھ کے متعلق قرآن مجید میں ارشاد ہوا:
”اس (جنت) میں بہت سی نہریں ایسے دودھ کی ہوں گی جن کا ذائقہ ذرا بھی نہ بدلے گا۔“
سنن میں مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جس کو اللہ کھانا کھلائے اسے کہنا چاہیے کہ اے اللہ ہمارے لیے اس میں برکت عطا فرما اور اس سے بہتر رزق ہمیں دے اور جس کو اللہ دودھ پلائے اسے کہنا چاہیے کہ اے اللہ ہمارے لیے اس میں برکت عطا کر اور اس کو زیادہ کر اس لیے کہ میں دودھ کے علاوہ کوئی دوسری چیز نہیں جانتا جو کھانے پینے کے لیے کافی ہوتی ہے۔“
دودھ اگر چہ دیکھنے میں بسیط معلوم ہوتا ہے مگر در حقیقت تین جوہروں سے طبعی طور پر مرکب ہے۔ پنیر گھی اور پانی۔
پنیر بارد مرطوب ہوتا ہے، بدن کو غذائیت بخشتا ہے۔
گھی حرارت و رطوبت میں معتدل ہے۔ تندرست انسانی جسم کے لیے موزوں ہے۔ اس کے فوائد بے شمار ہیں۔
پانی گرم اور تر ہوتا ہے۔ اسہال لاتا ہے بدن کو تازگی بخشتا ہے۔
دودھ مجموعی طور پر اعتدال سے بھی زیادہ سرد اور تر ہوتا ہے۔ بعض لوگوں کا قول ہے کہ دودھ دوہتے وقت اس کی حرارت و رطوبت بڑھی ہوتی ہے۔ بعض نے اس کو برودت (ٹھنڈک) و رطوبت میں معتدل قرار دیا ہے۔
بہترین دودھ تھن سے نکالا ہوا تازہ ہوتا ہے جیسے جیسے وقت گزرتا ہے اس میں نقص پیدا ہو جاتا ہے۔ تھن سے دودھ نکالنے کے وقت اس میں برودت کمتر ہوتی ہے، اور رطوبت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ترش دودھ اس کے برخلاف ہوتا ہے۔ پیدائش کے چالیس دن کے بعد والا دودھ سب سے عمدہ ہوتا ہے جس دودھ میں بہت زیادہ سفیدہ ہو تو وہ بہت خوب ہوتا ہے اور اس کی بو بھی خوشگوار ہوتی ہے اور لذیذ ہوتا ہے۔ اس میں معمولی شیرینی پائی جاتی ہے اور معتدل چکنائی ہوتی ہے۔ رقت و غلظت (پتلے اور گاڑھے ہونے) میں بھی معتدل ہوتا ہے بشرطیکہ تندرست جوان جانور سے لیا گیا ہو جس کا گوشت معتدل ہو، اور اس کا چارہ اور پانی بھی معتدل ہو۔
دودھ عمدہ خون پیدا کرتا ہے خشک بدن کو شاداب بناتا ہے بہترین غذائیت مہیا کرتا ہے وسواس و رنج و غم اور سوداوی بیماریوں کے لیے بہت زیادہ نفع بخش ہے۔ اور اگر اس میں شہد ملا کر پیا جائے تو اندرونی زخموں کو متعفن (بد بودار وغیرہ) اخلاط سے بچاتا ہے شکر کے ساتھ اس کے پینے سے رنگ نکھرتا ہے۔ تازہ دودھ جماع کے ضرر کی تلافی کرتا ہے، سینے اور پھیپھڑے کے لیے موافق ہوتا ہے، سبل (آنکھ کی ایک بیماری جس میں آنکھ پر پردہ پڑ جاتا ہے، موتیا) کے مریضوں کے لیے عمدہ غذا ہے۔ البتہ سر، معدہ، جگر اور طحال (تلی) کے لیے ضرر رساں ہے۔ اس کا زیادہ استعمال دانتوں اور مسوڑھوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ اسی لیے دودھ پینے کے بعد کلی کرنا چاہیے۔ چناں چہ بخاری اور مسلم میں روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ پیا پھر پانی طلب فرمایا اور کلی کی پھر فرمایا کہ دودھ میں چکنائی ہوتی ہے۔
بخار زدہ لوگوں کے لیے مضر ہے اسی طرح سر درد والوں کو بھی نقصان دیتا ہے دماغ اور کمزور سر کے لیے تکلیف دہ ہے اس کے ہمیشہ استعمال کرنے سے کور چشمی (اندھا پن) اور شب کوری (رات کو دکھائی نہ دینا) پیدا ہوتی ہے، جوڑوں میں درد اور جگر کے سدے پیدا ہوتے ہیں۔ معدہ اور احشاء (انتڑیوں) میں اپھارہ ہوتا ہے شہد اور سونٹھ کے مربہ سے اس کی اصلاح کی جاتی ہے یہ تمام بیماریاں اس کو لاحق ہوتی ہیں جو اس کا عادی نہ ہو۔
بھیڑ کا دودھ
سب سے گاڑھا اور مرطوب ہوتا ہے اس میں ایسی چکنائی اور بو ہوتی ہے جو بکری اور گائے کے دودھ میں نہیں ہوتی، یہ فضولات بلغمی پیدا کرتا ہے اس کو ہمیشہ استعمال کرنے سے جلد میں سفیدی پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے اس میں پانی ملا کر پینا چاہیے تا کہ جسم کو اس کا کمتر حصہ ملے تشنگی کے لیے تسکین بخش ہے اس میں برودت بہت زیادہ ہوتی ہے۔
بکری کا دودھ
لطیف معتدل ہوتا ہے، اور مسہل ہوتا ہے خشک بدن کو شاداب بناتا ہے حلق کے زخموں اور خشک کھانسی کے لیے بے حد مفید ہے اور نفث الدم (بلڈ پریشر) کو ختم کرتا ہے. دودھ عمومی طور پر جسم انسانی کے لیے نفع بخش مشروب ہے اس لیے کہ اس میں غذائیت اور خون کی افزائش ہوتی ہے۔ اور بچپن ہی سے انسان اس کا خوگر ہوتا ہے اور یہ فطرت انسانی کے عین مطابق ہے۔ چناں چہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں روایت ہے کہ:
” شب معراج میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شراب کا ایک پیالہ اور دودھ کا ایک پیالہ لایا گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کو دیکھا پھر دودھ کا پیالہ اپنے ہاتھ میں لے لیا اس پر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ کا شکر ہے جس نے آپ کی رہنمائی فطرت کی جانب فرمائی اگر آپ شراب کا پیالہ اٹھا لیتے تو آپ کی امت گمراہ ہو جاتی۔ “
ترش دودھ دیر میں آنتوں کو چھوڑتا ہے خلط خام پیدا کرتا ہے اس کو گرم معدہ ہی ہضم کرتا ہے اور اسی کے لیے یہ مفید بھی ہے۔
گائے کا دودھ
بدن کو غذا دیتا ہے اور اس کو شاداب بناتا ہے۔ اعتدال کے ساتھ اسہال لاتا ہے۔ گائے کا دودھ سب سے معتدل ہوتا ہے اور اس میں رقت و غلظت اور چکنائی بکری اور بھیڑ کے دودھ کے مقابل عمدہ ہوتی ہے۔ سنن میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت مذکور ہے کہ تم لوگ گائے کا دودھ استعمال کرو اس لیے کہ یہ ہر درخت سے غذا حاصل کرتی ہے۔ [طب نبوي ص: 492 تا 495]
اونٹنی کا دودھ
مدینہ منورہ میں نو وارد عکل اور عرینہ قبیلوں کے بعض افراد کو جب مدینہ طیبہ کی ہوا نا موافق ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے اونٹنی کا دودھ اور پیشاب تجویز کیا۔ [صحيح بخاري، ح: 5727]
اونٹنی کا دودھ قدرے نمکین ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ دوسرے تمام جانوروں کے دودھ سے پتلا اور رقیق بھی ہوتا ہے، اس لیے یہ جگر کے درد میں بہت مفید ہے۔ اس کی غذائیت بہت کم ہوتی ہے، اس لیے سدے کھولنے اور جلاب میں فائدہ بخش ہے۔اس طرح اونٹ کے پیشاب میں حرارت پائی جاتی ہے۔ بہل ہونے کی وجہ سے پیٹ کی بیماریوں میں مفید ہے۔ [زاد المعاد، ج 4، ص: 45 تا 48]
اونٹوں کا دودھ اور ان کا پیشاب
صحیحین میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے یہ روایت فرمائی کہ:
عرینیہ اور عکل کے لوگوں کا ایک گروہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ان لوگوں نے مدینہ کی اقامت نا پسند کی اور اس ناپسندیدگی کی شکایت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم زکوۃ میں آئے ہوئے اونٹوں کا دودھ اور پیشاب استعمال کرتے تو مفید ہوتا۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ جب یہ گروہ تندرست ہو گیا تو بجائے احسان مند ہونے کے انہوں نے چرواہوں پر جان بوجھ کر حملہ کیا اور انہیں قتل کر ڈالا، اور اونٹوں کو ہنکا لے گئے اور آمادہ پیکار ہوئے ۔اللہ و رسول سے بغاوت کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی جستجو پر مہم روانہ فرمائی انہوں نے ان کو گرفتار کیا۔ آپ نے ان کے ہاتھ، پیر کاٹ دینے اور آنکھوں میں سلائی ڈال کر آنکھ پھوڑ دینے کا حکم دیا، چناں چہ ان کے ساتھ یہ کیا گیا اور انہیں دھوپ میں ڈال دیا گیا اس اذیت کے ساتھ ان سب کی موت واقع ہوئی۔
اس بیماری کے استقاء ہونے کا اندازہ مسلم کی ایک روایت سے ہوتا ہے۔ صحیح مسلم میں روایت ہے کہ انہوں نے شکایت میں یہ الفاظ کہے:
ہم مدینہ میں اقامت گزیں ہوتے ہیں اس قیام کے نتیجہ میں ہمارے شکم بڑھ کر نکل آئے اور ہمارے اعضاء میں لرزش پیدا ہو گئی، پھر حدیث کا بالائی حصہ ذکر کیا۔“
استسقاء مرض مادی ہے جس کا سبب ایک ٹھنڈا مادہ ہے جو اعضاء کے خلل میں گھس جاتا ہے جس سے ان اعضاء میں بڑھوتری آجاتی ہے کبھی تمام اعضاء ظاہرہ میں یہ صورت پیدا ہو جاتی ہے اور اس کے اطراف میں یہ مادہ باردہ غریبہ گھس جاتا ہے اور ان حصوں کی بڑھوتری کا سبب بن جاتا ہے۔
اس بیماری کے علاج میں جن دواؤں کی سخت ضرورت ہے وہ دوائیں ایسی ہونی چاہئیں جو اس مادہ کو کھینچ کر ہلکے دستوں کے ذریعہ باہر کر دیں، یہ دونوں خصوصیات اونٹوں کے دودھ اور پیشاب میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس کے استعمال کا حکم فرمایا۔ اس لیے گا بھن اونٹنی کے دودھ سے پاخانہ نرم ہوتا ہے جس نرم پاخانہ کے ساتھ گندا مادہ خارج ہو جانے اور اس میں پیشاب لانے کی بھی خاصیت ہے، خواہ یہ پاخانہ و پیشاب کسی قدر زیادہ ہو خواہ کسی قدر کمتر ہو ان کے استعمال سے سدے کھل جاتے ہیں یعنی ہر قسم کے روک کھل جاتے ہیں۔ اس لیے عموماً اونٹ کئی قسم کی گھاس کھاتے ہیں جو مفید ادویہ ہیں۔ یہ بیماری جگر کی خرابی کے بغیر پیدا نہیں ہوتی۔ اگر جگر سے کلیہ نہیں تو کم از کم کسی قدر شرکت تو ضروری ہوتی ہے اور عموما سدہ جگر اس کا سبب ہوتا ہے اور عربی اونٹوں کا دودھ اس کے لیے اور سدوں کو کھولنے کے لیے بہت مفید ہے اور دوسرے ایسے منافع بھی اس سے مرتب ہوتے ہیں جو استسقاء کو کم یا ختم کر دیتے ہیں۔
رازی رحمہ اللہ نے کہا کہ اونٹنی کا دودھ جگر کے تمام دردوں کے لیے دوائے شافی ہے۔ اسی طرح مزاج جگر کے فساد کو بھی ختم کر دیتا ہے۔ اسرائیلی نے کہا ہے کہ اونٹنی کا دودھ بہت زیادہ رقیق ہوتا ہے اس میں مائعیت اور تیزی یعنی سرعت نفوذ غیر معمولی ہوتی ہے اور غذائیت کے اعتبار سے سب سے کمتر ہوتا ہے، اس وجہ سے تمام غذاؤں میں فضولات کی تلطیف (اختلاط) کے اعتبار سے سب سے زیادہ قوی ہے، اس کے کھانے سے دست آتے ہیں۔
ریشم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خارش دور کرنے کے لیے ریشم کاقمیض پہننے کی رخصت عنایت فرمائی۔ [صحيح بخاري، ح:2919]
شریعت اسلامیہ میں مردوں کے لیے ریشم کے استعمال کو ممنوع قرار دیا گیا ہے جب کہ خارش اور جوؤں کے دور کرنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے رکھی ہے۔
خواص:
چوں کہ ریشم ایک حیوان ہی سے بنتا ہے اس لیے یہ حیوانی ادویات میں استعمال ہوتا ہے۔ تقویت قلب اور تقویت بصر کا سبب بنتا ہے، گرم خشک مزاج ہے۔ ریشم باریک ہو تو جسم کو حرارت اور موٹا ہو تو برودت فراہم کرتا ہے۔ چوں کہ خارش بھی خشکی گرمی سے ہوتی ہے، اس لیے اس میں مفید ہے کیوں کہ اس میں ملائمت پائی جاتی ہے۔ [زاد المعاد، ج 4، ص: 79,78]
صحیحین میں بروایت قتادہ رحمہ اللہ یہ حدیث ہے:
انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمن بن عوف اور زبیر بن عوام رضی اللہ عنہما کو خارش کی بنا پر ریشمی کپڑے پہننے کی خصوصی اجازت مرحمت فرمائی تھی۔
دوسری روایت میں یہ ہے کہ:
عبد الرحمن بن عوف اور زبیر بن عوام رضی اللہ عنہما صحابیان رسول نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جوں پڑنے کی شکایت ایک جنگ کے موقع پر کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو ریشمی قمیص استعمال کرنے کی اجازت دی اور اس کو میں نے ان کے جسم پر پہنے بھی دیکھا تھا۔
(بخاری نے 73/6 الجہاد میں باب الحریر فی الحرب کے تحت ذکر کیا ہے اور مسلم نے فی اللباس 2076 حدیث باب” اباحة لبس الحرير للرجل“ مرد کے لیے کپڑے کا استعمال جائز کے تحت بیان کیا ہے۔)
ریشمی کپڑے اور سونا میری امت کے مردوں پر حرام کیا گیا، اور عورتوں کے لیے حلال کیا گیا۔
(اس کو عبد الرزاق نے اپنی مصنف میں حدیث نمبر 19930 کے تحت اور نسائی نے 161/8 فی الزینہ جہاں باب تحریم الذہب علی الرجال سونا مردوں کے لیے حرام ہے قائم کیا ہے۔ اور ترمذی حدیث نمبر 2017 فی اللباس کے باب اول میں لائے ہیں۔ یہ حدیث صحیح ہے اس کے راوی متعدد صحابہ ہیں۔)
اور بخاری میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
”اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشم اور دیباج کے پہننے اور اس پر بیٹھنے سے منع کر دیا اور فرمایا کہ یہ کافروں کے لیے دنیا میں ہے اور آخرت میں تمہارے لیے ہے۔“
(امام بخاری نے لباس میں مردوں کے لیے ریشم پہنا جائز ہے باب کے تحت ذکر کیا ہے۔)
زیتون اور اس کا تیل
اللہ تعالیٰ نے سورۃ النور میں ارشاد فرمایا:
﴿يُوقَدُ مِن شَجَرَةٍ مُّبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ﴾
”روشن کیا جاتا ہے زیتون کے مبارک درخت (کے تیل) سے جو نہ شرقی ہے اور نہ غربی، قریب ہے کہ اس کا تیل بھڑک اٹھے خواہ اسے آگ بھی نہ چھوئے۔“
(24-النور:35)
ترمذی اور ابن ماجہ میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا، زیتون کا تیل پیو اور اس کی مالش کرو کیوں کہ یہ بڑے بابرکت درخت سے حاصل ہوتا ہے۔
بیہقی اور ابن ماجہ میں بھی سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” زیتون کا تیل بطور سالن بھی استعمال کرو اور اسے سر پر بھی لگاؤ، کیوں کہ یہ بہت مبارک درخت سے لیا جاتا ہے۔“
ایک اور حدیث میں ہے کہ روغن زیتون کو بطور سالن استعمال کرو اور اسے زخموں پر لگاؤ اس لیے کہ یہ ایک مبارک درخت سے حاصل ہوتا ہے۔ [سنن ابن ماجہ، ح:3319]
ایک حدیث میں ہے کہ روغن زیتون کو بطور سالن استعمال کرو اور اسے زخموں پر لگاؤ اس لیے کہ یہ ایک مبارک درخت سے حاصل ہوتا جاتا ہے۔
(سنن ابن ماجہ: 3319، مصنف عبدالرزاق: 1952 / اس حدیث کی سند جید ہے)
محکم دلائل و براہین سے مزین متنوع و منفرد کتب پر مشتمل مفت آن لائن مکتبہ
خواص
زیتون ایک درخت کا نام ہے جو ملک شام فلسطین اور اردن کے علاقوں میں عام طور پر پایا جاتا ہے، قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے اس مبارک درخت کی قسم بھی کھائی ہے، فرمایا:
﴿وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ . وَطُورِ سِينِينَ . وَهَٰذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ.﴾
”انجیر کی قسم اور زیتون کی اور طور سینین کی اور اس امن والے شہر کی قسم۔“
(95-التين:1 تا 3)
زیتون کا پھل سبز کا ٹھے بیر یا عناب کے برابر ہوتا ہے، اس کا اچار بھی ڈالا جاتا ہے اور سالن بھی پکا کر کھایا جاتا ہے، اس سے روغن بھی نکالا جاتا ہے جسے روغن زیتون کہتے ہیں۔ زیتون کا تیل گرم تر ہوتا ہے، جس نے اسے خشک بتایا ہے اس نے غلط کہا ہے، پکے ہوئے تازہ زیتون سے تیل اچھا اور بہترین نکلتا ہے جب کہ کچے زیتون کے پھل سے نکلنے والا تیل قدرے سرد خشک مزاج رکھتا ہے۔ سرخ زیتون کے تیل کا مزاج معتدل اور سیاہ زیتون کا گرم معتدل ہوتا ہے۔ اس کا تیل تریاق کا کام دیتا ہے، سدے کھولتا ہے اور پیٹ کے کیڑے نکال دیتا ہے۔ تیل جس قدر پرانا ہو گا اس کی حرارت اس قدر بڑھتی چلی جائے گی۔ تیل کی ہمہ اقسام ملین الجلد ہیں اور بالوں کی سفیدی کو روکتا ہے۔
زیتون کا نمکین پانی آگ سے جلے اور آبلوں میں بے حد مفید ہے اور مسوڑھوں کے ورم دور کرتا ہے اور اس کے پتے خسرہ، الرجی اور گندے زخموں کو صاف کرنے میں مفید ہیں۔ اس کے فوائد اس کے علاوہ بھی بہت ہیں۔ [ زاد المعاد، ج: 4 ص: 167]
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زیتون کھاتے رہا کرو اور اس کے تیل کی مالش بھی کرتے رہا کرو کیوں کہ یہ با برکت درخت کا (پھل اور تیل) ہے۔ [مسند احمد، 497/3]
سرمنڈانا
صحیح بخاری و مسلم میں کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
”میرے سر میں تکلیف تھی لوگ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اٹھا کر لے گئے، میرے سر میں اتنی جوئیں تھیں کہ چہرے پر رینگتی تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا واقعی تم بڑی سختی اور اذیت میں ہو۔“
دوسری روایت میں ہے کہ ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سر کے بال منڈانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ (اس کے عوض) چھ آدمیوں کی ایک جماعت کو کھانا کھلاتے یا ایک بکری ذبح کرے یا تین دن روزے سے رہے۔“
بدن میں یا سر میں جوؤں کے پیدا ہونے کے دو سبب ہیں اس کا سبب خارج بدن سے ہوتا ہے یا داخل بدن سے۔
خارج بدن سے ہونے والا سبب میل کچیل ہے جو تہہ بہ تہہ جسم کے اوپر جم جائے اور دوسرا جب وہ مادہ جس کو طبیعت جلد اور گوشت کے درمیان پھینکتی ہے پیدا ہو جاتا ہے تو یہ کثافت رطوبت سے مل کر مسامات سے نکلنے کے بعد پیدا ہوتی ہے اس لیے کہ بیماری کی وجہ سے میل کچیل کی کثرت ہوتی ہے اور بچوں کے سروں میں زیادتی ہوتی ہے۔ کیوں کہ ان میں زیادہ ایسے رطوبات اور اسباب پائے جاتے ہیں جن سے جوں پیدا ہوتی ہے اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی جعفر کے سروں کو منڈوایا تھا۔
اس کا سب سے بہترین علاج یہ ہے کہ سر منڈا دیا جائے تا کہ مسامات کھل جائیں جس سے بخارات نکلتے ہیں چنانچہ جڑیں کھلنے سے ردی بخارات نکل جائیں گے اور مادہ خلط کمزور پڑ جائے گا۔ اور بہتر یہ ہے کہ سر منڈانے کے بعد جوؤں کے مارنے والی دوائیں اس پر لیپ کی جائیں جس سے سر میں جوؤں کا وجود نہ رہے گا۔ [زاد المعاد، ج:4، ص: 159 و 158]
کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے میں ایک ہانڈی کے نیچے آگ جلا رہا تھا اور جوئیں میرے سر سے گر رہی تھیں (اور میں احرام باندھے ہوئے تھا) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا سر کی یہ جوئیں تمہیں تکلیف پہنچاتی ہیں؟ میں نے عرض کی کہ جی ہاں۔ فرمایا کہ پھر سر منڈوالو۔
حالت احرام میں سر منڈانا منع ہے مگر اس تکلیف میں آپ نے کعب بن عجرہ کو سر منڈانے کی اجازت دے دی اور ساتھ ہی کفارہ دینے کا حکم فرمایا۔ [صحيح بخاري، از علامه داؤد راز ص: 290، ج: 7]
سَنا مکی
ترمذی اور ابن ماجہ نے اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کی روایت نقل کی ہے:
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم کس چیز سے دست لاتی ہو؟ انہوں نے کہا شبرم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا گرم اور مضر ہے۔ کہتی ہیں پھر اس کے بعد ہم دست لانے کے لیے سَنا کا استعمال کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی چیز موت سے بچاتی تو وہ سنا ہوتی۔“
(ترمذی نے حدیث نمبر 2082 اور ابن ماجہ نے 3461 اور احمد نے 369/6 اور حاکم نے 201,200/4 میں ذکر کیا ہے اس کی سند میں جہالت ہے مگر آنے والی حدیث سے اس کی تائید ہوتی ہے، جس سے اس میں قوت پیدا ہوگئی ہے۔)
سنن ابن ماجہ کی دوسری حدیث ابراہیم بن ابی عبلہ نے عبد اللہ بن ام حرام رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے:
” عبداللہ بن ام حرام جنہوں نے تحویل قبلہ والی نماز میں شرکت کی وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے سنا کہ بس سَنا اور زیرہ استعمال کیا کرو، اس لیے کہ ان دونوں میں بجز سام کے ہر بیماری کے لیے شفاء ہے پوچھا گیا کہ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سام کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: موت۔“
( ابن ماجہ نے حدیث نمبر 3357 حاکم نے 201/4 میں اس کو نقل کیا ہے اس کی سند میں عمرو بن بکر السکسکی ہے جو ضعیف ہے اور تہذیب میں ہے کہ اس کی متابعت شداد بن عبد الرحمن الانصاری نے کی ہے اور حدیث سابق سے اس کی تائید ہوتی ہے۔)
سنا حجاز میں پیدا ہونے والی ایک نبات ہے اس میں سب سے عمدہ مکی ہوتی ہے سنا عمدہ دوا ہے، جس میں نقصان کا پہلو کمتر ہے، اعتدال سے قریب درجہ اول میں گرم اور خشک ہے، صفراء اور سودا دونوں کے لیے مسہل ہے، قلب کو مضبوط کرتی ہے، یہ اس کی سب سے بڑی خوبی ہے کہ باوجود مسہل ہونے کے مقوی قلب ہے۔ وسواس سوداوی کو خصوصیت سے زائل کرتی ہے، بدن میں پیدا ہونے والی پھٹن کے لیے اکسیر ہے۔ عضلات کو چست بنا دیتی ہے بالوں کو گرنے سے بچاتی ہے، جوؤں سے حفاظت کرتی ہے پرانے درد سر کو ختم کرتی ہے، کھجلی، دانے، خارش اور مرگی کے لیے نافع ہے۔ اس کا جوشاندہ اس کے سفوف سے زیادہ نافع ہے، جس کی خوراک تین درہم تقریباً نو گرام ہے اور جوشاندے کو پانچ درہم تقریباً پندرہ گرام اور اگر جوشاندے میں گل بنفشہ موبز منقی بھی پکا لیا جائے تو اور بہتر ہے۔
پَچھنے (سِینگی) لگوانا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پچھنے لگوانا اور عود ہندی استعمال کرنا دونوں بہترین علاج ہیں۔“ [صحیح بخاری، ح: 5696]
فشار خون کی صورت میں جسم کے بعض اعضا سے خون نکلوادینا تا کہ اس سے درد وغیرہ میں افاقہ ہو جائے اس عمل کو پچھنے لگوانا یا سینگی لگوانے سے موسوم کرتے ہیں۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگی لگوائی اور لگانے والے کو اس کی اجرت دی [صحيح بخاري، ج 5691]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب معراج پر تشریف لے گئے تو ملائکہ نے ان سے عرض کی کہ
اپنی امت سے کہیں کہ وہ پچھنے لگوائیں۔ پچھنا ایک قدیم علاج ہے جو کہ بہت مفید ہے یہ گرم اور سرد دونوں علاقوں میں مفید ہے۔ چین کا یہ قومی علاج ہے اور پورے ملک میں یہ علاج کیا جاتا ہے۔
یہ عرب ملکوں کے علاوہ جنوب مشرقی ایشیا کے ملکوں میں بھی رائج ہے۔
امریکہ اور یورپ کی یونیورسٹیوں میں ان طلباء کو جو کہ متبادل ادویات (Alternative Medicine) کا مضمون پڑھ رہے ہیں۔ سینگی (حجامہ) پڑھایا اور سکھایا جاتا ہے۔
ہر ڈاکٹر (مرد ہو یا عورت) کو چاہیے کہ وہ اسے سیکھے اور اس کے ذریعے سے علاج کرے۔ تاہم تجربہ کار استاد سے سیکھ کر ہی علاج کرے، از خود تجربہ نہ کرے۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کا واقعہ ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ (اس رات) فرشتوں کی جس جماعت پر بھی گزر ہوا، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا کہ آپ اپنی امت کو پچھنے سے علاج کا حکم فرمائیں۔
جامع ترمذی، ح:2053 بحوالہ کتاب ”پچھنا “علاج بھی سنت بھی از ڈاکٹر امجد احسن علی، ص:3
خواص
پیٹھ کو ہلکا کرنا اور نظر تیز کرنا، بدن کو ظاہری خوبصورتی دینا حلق اور کندھے کی درد میں افاقہ دینا اس کے خواص ہیں۔ اس کے علاوہ چہرہ، دانت، کان، آنکھیں، ناک وغیرہ کے امراض اگر فشار خون کی وجہ سے ہوں تو ان میں بھی مفید ہے۔ سر درد کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے منتخب کیا تھا، ہاتھ اور کلائی وغیرہ کی درد میں مفید ہے۔ [زاد المعاد، ج 4، ص: 63 و 52]
ایمان کا تقاضا یہی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر ارشاد پر آمنا وصدقنا کہا جائے اور بلا چون و چرا اسے تسلیم کر لیا جائے اس لیے کہ آپ نے جو کچھ فرمایا وہ سب اللہ کی طرف سے ہے اور وہ بالکل سچ ہے۔ پچھنا لگوانے میں شفا ہونا ایسی حقیقت ہے جسے آج کی ڈاکٹری و حکمت نے بھی تسلیم کیا ہے کیوں کہ اس سے فاسد خون نکل جاتا ہے اور صالح خون اس کی جگہ لے لیتا ہے جو صحت کے لیے ایک طرح کی ضمانت ہے، صدق اللہ و رسولہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام کی حالت میں اپنے سر میں پچھنا لگوایا آدھے سر کی درد کی وجہ سے جو آپ کو ہو گیا تھا۔
آدھے سر کے درد کو آدھا سیسی کہتے ہیں یہ بہت ہی تکلیف دہ درد ہوتا ہے، اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سر میں پچھنا لگوایا۔ معلوم ہوا کہ اس درد کا علاج یہی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا۔
شہد
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿فِيهِ شِفَاءٌ لِّلنَّاسِ﴾
”اس (شہد) میں (اللہ کی طرف سے) لوگوں کے لیے شفا ہے۔“
(16-النحل:69)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی کو اسہال لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے شہد تجویز کیا، جس سے وہ ٹھیک ہو گئے۔ [صحیح بخاری، ح: 5684]
خواص
صفراوی، بلغمی اور سوداوی امراض کے لیے بے حد مفید ہے۔ سرد امراض میں گرم دوا سے علاج کیا جاتا ہے اور شہد میں درجہ اتم گرمی پائی جاتی ہے۔ مادہ بارد و بلغم اور رگوں کے مختلف منجمد معفر مادوں کو نکالنے میں مدد دیتا ہے۔ رطوبت خارج کرتا ہے، بڑھاپے کا ساتھی اور جوانوں کا ٹانک ہے۔ بچوں کے اندر قوت مدافعت پیدا کرتا ہے، معجونات کا محافظ اور دواؤں کی ناپسندیدہ کیفیات کو زائل کرتا ہے۔ مدر البول (پیشاب آور) ہے، بالوں کو لمبا خوبصورت اور نرم کرتا ہے، اس کا سرمہ آنکھوں کو جلا بخشتا ہے، بطور منجن استعمال کریں تو مسوڑھوں کو مضبوط کرتا اور دانتوں کی چمک بڑھاتا ہے۔ نہار منہ کھانے سے بلغم اور معدے کے فضلات دور کرتا ہے۔ سدے کھولتا، اور مثانے اور گردے کی صفائی کرتا ہے۔ [زاد المعاد، ج 4، ص: 33، 34]
(اس موضوع پر راقم کے والد گرامی قدر جناب ملک بشیر احمد صاحب حفظہ اللہ کی کتاب ”پاکیزہ شہد پاکیزہ زندگی“ مطبوعہ ہوئی اکیڈمی لاہور کا مطالعہ بے حد مفید ہوگا۔)
طب نبوی میں اسہال کا طریقہ علاج
صحیحین میں ابومتوکل کی حدیث جو ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرے بھائی کے شکم میں تکلیف ہے، ایک روایت میں ہے کہ دست ہو رہے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے شہد پلاؤ.“
وہ گیا اور واپس آکر اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے اسے شہد پلایا مگر کوئی نفع نہیں ہوا، دوسری جگہ ہے کہ اس کے پلانے سے دستوں میں زیادتی ہوئی یہ بات دو یا تین مرتبہ کے تکرار سے پیش آتی رہی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے شہد پلانے کا حکم کرتے رہے، تیسری بار یا چوتھی بار یہ نوبت آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کا کہا سچ ہے، تیرے بھائی کا شکم جھوٹا ہے۔
(بخاری نے اسے 119/10 فی الطب میں باب الدواء بالعسل کے تحت ذکر کیا ہے اور اسی باب میں باری تعالیٰ کا قول (فیہ شفاء للناس) بھی ہے اور مسلم نے 2217 حدیث کے تحت ”السلام“ میں تداوی بالعسل کا باب قائم کر کے ذکر کیا ہے۔)
شہد غیر معمولی نافع کا حامل ہے ان گندگیوں کو جو معدہ یا عرق و آنت میں پیدا ہو جاتی ہیں صاف کر دیتا ہے۔ رطوبات کے لیے محلل (انہیں حل کر دیتا) ہے خواہ کلاً (کھانے سے) ہو یا ضماد (ملنے سے) بوڑھوں کے لیے اور جنہیں بلغم کی پیداوار ہو یا اس کا مزاج بارد رطب (سرد تر) ہو، اس میں غذائیت بھر پور ہے، پاخانہ نرم کرتا ہے۔ معجون کے لیے اور اس میں شامل کی جانے والی دواؤں کے لیے نگران قوت ہے۔ اسے عرصہ تک بگڑنے نہیں دیتا۔
ناپسندیدہ ذائقہ کی دواؤں کے ذائقہ کو بہتر کر دیتا ہے اس کی مضر کیفیات کو دور کرتا ہے۔ جگر اور سینے کو صاف کرتا اور نکھارتا ہے۔ پیشاب لاتا ہے بلغمی کھانسی کو ختم کرتا ہے۔
اگر روغن گل کے ساتھ گرم گرم استعمال ہو تو کیڑوں مکوڑوں کے ڈنگ کے لیے دافع ہے، افیون کھانے والے کی سميت کم کرتا ہے اور اگر صرف شہد کو پانی ملا کر پلائیں تو باؤلے کتے کے کاٹے کو نفع دیتا ہے زہریلی نبات (دھرتی کے پھول سانپ کی چھتری کی ایک قسم ہے) کے کھانے کا اثر زائل کرتا ہے، اگر تازہ گوشت شہد میں ڈبو کر رکھ دیا جائے تو تین مہینے تک متعفن نہیں ہوسکتا۔
اگر کھیرے، ککڑی، کدو، بینگن اور دوسرے تازہ پھل اس میں رکھے جائیں تو چھ ماہ تک عمدہ بہتر حال میں رہتے ہیں، اور مردار کے جسم کو عفونت سے روکتا ہے شہد کو حافظ، امین، نگران، امانت دار کہتے ہیں، اگر جوؤں دار جسم اور بالوں میں لگایا جائے تو جوئیں اور لیکھ کو مار ڈالتا ہے، بالوں کو بڑھاتا اور زینت دیتا ہے اس میں نرمی اور ملائمت پیدا کرتا ہے، اگر اس کو سرمہ کے طور پر آنکھوں میں لگایا جائے تو دھند کے لیے نافع ہے اور اگر دانتوں میں پیسٹ کیا جائے تو دانتوں کی چمک اور سفیدی پیدا کرتا ہے دانتوں کی حفاظت کرتا ہے مسوڑھوں کو مضبوط کرتا ہے، رگوں کا منہ کھولتا ہے۔ ایام کا خون اچھی طرح سے بہتا ہے اور آنے لگتا ہے۔ نہار منہ چاٹنے سے بلغم ختم ہو جاتا ہے، معدے کے شمل (چھوٹے چھوٹے بال) کو غسل دے کر صاف کر دیتا ہے اور معدہ سے فضلات نکالتا ہے، معدہ کو معتدل گرمی پہنچاتا ہے، سدوں کو شیرینی کی مضرت سے ہونے والے نقصان سے محفوظ رکھتا ہے۔
ان سب کے ہوتے ہوئے مضرتوں سے محفوظ نقصان سے خالی صفراوی مزاج کے لیے عارضی طور پر نقصان دیتا ہے جو سرکہ اور دوسری ترشی سے کم ہو جاتا ہے، بلکہ اس کے ساتھ اس کا نفع بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
شہد غذا کے موقع پر غذا، دوا کے وقت دوا اور شربت کی جگہ شربت ہے، عمدہ قسم کی شیرینی اعلیٰ درجہ کا طلاء اور نادر قسم کا مفرح ہے۔ چناں چہ قدرت نے ان تمام منافع کی حامل کوئی چیز اس کے سوا نہیں بنائی نہ اس سے بہتر نہ اس جیسی نہ اس سے لگا کر کھانے والی، اور قدماء کا دستور علاج شہد ہی رہا ہے اس پر ہی سارا علاج گھومتا تھا، بلکہ قدماء کی کتابوں میں تو شکر کا کہیں پتہ تک نہیں۔ صدیوں لوگ اس کا نام بھی نہ جانتے تھے، بلکہ شکر تو آج کی پیداوار ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہار منہ پانی ملا کر پیا کرتے تھے اور یہ ایسا جگر دار نسخہ ہے جو صحت کے لیے کیمیا کا کام کرتا ہے اسے بڑے زیرک اور باہوش فاضلین ہی جان سکتے ہیں۔
ان خصوصیات کے علم کے بعد یہ سمجھئے کہ اس علاج میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نسخہ مریض کے اسہال ختم کرنے کے لیے تھا، جو امتلاء معدہ کی بنیاد پر پیدا ہو گیا تھا، چناں چہ آپ نے شہد کا استعمال ان فضولیات کے نکالنے کے لیے تجویز فرمایا تھا جو معدہ اور آنتوں میں پھیلا ہوا تھا، شہد سے اس میں جلا ہوتی ہے اور فضولیات کا خاتمہ ہوتا اور معدہ میں گاڑھا اور لیس دار مادہ پوری طرح مسلط تھا۔ غذا کا وہاں رکنا لیس دار مادہ کے وہاں چپکنے کی وجہ سے مشکل تھا اس لیے کہ معدہ میں روئیں ہوتے ہیں جیسے اروئی کے پتے کے روئیں، جن میں چپکنے والے اخلاط لگ جاتے ہیں تو معدہ کو فاسد کر دیتے اور غذا سے معدہ فاسد ہو جاتا ہے اس لیے اس کا علاج اسی انداز سے ہونا چاہیے کہ وہ گاڑھا مادہ ان رویوں سے صاف ہو جائے اور شہد سے یہ چیز ممکن ہے، شہد ہی اس کا بہترین علاج ہے۔ یہ مرض شہد سے جا سکتا ہے بالخصوص اگر شہد کے ہمراہ تھوڑا سا گرم پانی ملا دیا جائے، تو سبحان اللہ۔
آپ کا بار بار شہد کا استعمال کرانا ایک نادر طریقہ علاج تھا، اس لیے کہ دوا کی مقدار اس کے استعمال کا تکرار مرض کی شدت کو دیکھ کر ہی کی جاتی ہے، اگر مرض کے تناسب سے اس میں کمی ہے تو مرض پوری طرح زائل نہ ہوگا اور اگر مقدار یا دوا کے استعمال کی باری زائد ہو جائے تو اس کی قوت یا بار بار استعمال سے دوسرے نقصان کا اندیشہ متوقع ہے۔ اس لیے آپ نے اسے شہد کا استعمال تجویز کیا۔ اس نے اتنی مقدار پلایا جو مرض ختم کرنے کے لیے کافی نہ تھی اور مقصود حاصل نہ تھا۔ جب انہوں نے آپ کو مرض کی کیفیت بتائی تو آپ نے سمجھ لیا کہ دوا مرض کے تناسب سے نہیں کھلائی گئی جب انہوں نے آپ کے علاج پر شکوہ کیا۔ تو آپ نے اس تکرار شکوہ پر مریض کو مزید شہد پلائے جانے کی ہدایت کی تاکہ بیماری کو اکھاڑ پھینکنے کی حد تک شہد کی مقدار پہنچ جائے، جب بار بار کی تکرار سے دوا کے مشروب کی مقدار مادہ مرض کی مقاومت کی حد تک پہنچ گیا تو بیماری فضل الہی سے جاتی رہی، دوا کی مقدار اس کی کیفیات اور مرض و مریض کی قوت کا لحاظ رکھ کر علاج کرنا فن طبابت کا اہم ترین کلیہ ہے، بغیر اس کے علاج نا تمام رہتا ہے۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا: صدق الله وكذب بطن أخيك میں اس دوا کے نفع کا یقینی ہونا بیان کرنا مقصود ہے، بیماری دوا کی کمی یا خرابی کی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ معدہ کے صحیح طور پر کام نہ کرنے، دوا کو کثرت مادہ فاسدہ کی وجہ سے قبول نہ کرنے کی وجہ سے زوال مرض نہ ہو رہا تھا، اسی لیے آپ نے بار بار اس کا اعادہ کرایا تا کہ مادہ کی کثرت میں نافع ہو۔
آپ کا طریقہ علاج دوسرے اطباء کے طریقہ علاج سے کوئی نسبت نہیں رکھتا تھا، اس لیے کہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طب تو متیقن اور قطعی ہے اسے اللہ کی تلقین اور الہام سمجھنا چاہیے۔ آپ کا علاج وحی الہی تھا، نبوت کی روشنی اور کمال عقل پر موقوف تھا۔ اس کے برخلاف دوسرے اطباء کا علاج عموماً طبیعت کی رسائی، ظن غالب اور تجربہ پر موقوف و منحصر ہے۔ نبوت کے ذریعہ علاج کے نافع نہ ہونے کا انکار بمشکل کوئی کرسکا، ہاں اس علاج کے نافع ہونے کا یقین اور پوری عقیدت سے اس علاج کو تسلیم کرنا اور اس کے شفاء کامل ہونے کا اعتقاد اور پورے یقین و اذعان کے ساتھ اس کو قبول کرنا بھی ضروری ہے۔ قرآن جو سینوں کی بیماری کے لیے شافی ہے جو اس کو اس یقین کے ساتھ نہ قبول کرے گا اسے اس کی دواؤں سے شفاء کامل کیسے ہوگی؟
بلکہ جن کے دلوں میں کھوٹ ہے، ان کو یقین نہیں ہے، ان میں گندگی پر گندگی آلائش پر آلائش، بیماری پر بیماری بڑھتی جاتی ہے، پھر انسانی جسم کا علاج قرآن سے کیونکر ممکن ہوسکتا ہے، طب نبوت تو انہی کے لیے سود مند ہوتی ہے جو پاک اور ستھرے بدن کے لوگ ہوں گے، اسی طرح شفاء قرآنی بھی ارواح طیبہ اور زندہ دلوں کے لیے شفاء ہے، اس لیے جو طب نبوت کے منکر ہیں وہ قرآن سے کیسے شفاء پاسکتے ہیں؟ اگر کچھ فائدہ نہیں ہو بھی گیا تو بلا ان شرائط کی تکمیل کے مکمل شفاء نہ ہوگی۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ علاج اور دوا میں کوئی نقص اور کوتاہی ہے بلکہ خود استعمال کیے جانے والے جسم میں استفادہ کی صلاحیت بوجہ خرابی باطن کے نہیں ہے۔ دوا سے شفاء خبث طبیعت اور محل فاسد اور قبول کا سد کی وجہ سے نہیں ہے۔ [ طب نبوی ص: 53 تا 57]
امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں یوں باب قائم کیا ہے: (اللہ نے) شفا تین چیزوں میں (رکھی) ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شفاء تین چیزوں میں ہے۔ پچھنا لگوانے میں، شہد پینے میں اور آگ سے داغنے میں، مگر میں اپنی امت کو آگ سے داغنے سے منع کرتا ہوں۔ جب کہ دوسرا باب یوں ہے:
شہد کے ذریعہ علاج کرنا اور فضائل شہد میں اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ اس میں (ہر مرض سے) لوگوں کے لیے شفاء ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شیرینی اور شہد پسند تھا۔
تشریح از علامه داؤد راز دہلوی رحمہ اللہ
شہد دوا اور غذا دونوں کے لیے کام دیتا ہے، بلغم کو نکالتا ہے اور اس کا استعمال امراض باردہ (سرد امراض) میں بہت مفید ہے۔ خالص شہد آنکھوں میں لگانا بھی بہت نفع بخش ہے۔خصوصاً سوتے وقت اسی طرح اس میں سینکڑوں فائدے ہیں۔ [صحيح بخاري از علامه داؤد راز دهلوي، مطبوعه مكتبه قدوسيه لاهور ص: 280 تا 281، ج: 7]
عجوہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جو شخص صبح کے وقت سات کھجور عجوہ کھالے اس کو اس دن جادو اور زہر نقصان نہیں پہنچاسکتے۔“ [صحيح بخاري، ح:5779]
خواص
یہ جنت کا پھل ہے، یقین کے ساتھ اس کا استعمال بے حد مفید ہے، کھجور کی تمام خاصیات کے ساتھ ساتھ اس کے متعلق فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے خصوصی حیثیت دی ہے۔ اس وجہ سے عام کھجور کے مقابلہ میں بہت مہنگی ہے۔ [زاد المعاد، ج 4 ص: 341]
عود ہندی
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عود ہندی استعمال کیا کرو اس میں سات بیماریوں سے شفاء ہے۔ حلق کے درد میں اسے ناک میں ڈالا جاتا ہے۔ ذات الجنب (پسلی کا درد، جس میں اندرونی طور پر پھوڑا نکل آتا ہے) میں چبایا جاتا ہے۔ [صحيح بخاري، ح:5692]
خواص
مزاجاً حار (گرم) ہے، بلغم اور زکام میں مفید ہے، ضعف جگر اور بارد کے بخار میں بہترین ہے۔ زہر کا تریاق بھی ہے شہد اور پانی کے ساتھ ملا کر منہ پر لیپ کرنے سے کیل، چھائیاں ختم ہو جاتی ہیں۔ کرم کش ہے اور ذات الجنب میں مفید ہے۔ [ زاد المعاد، ج 4، ص: 344,343]
عود ہندی سے ذات الجنب کا علاج نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
امام ترمذی رحمہ اللہ نے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ:
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ذات الجنب کا علاج عود ہندی اور زیتون سے کرو۔“
(ترمذی اسے کتاب الطب، ح: 2080 باب ماجاء فی دواء ذات الجنب، کے تحت لائے ہیں البتہ حاکم نے 202/4 میں اس کی سند میں میمون ابو عبد اللہ البصری کو ضعیف کہا ہے۔)
ذات الجنب پہلو کے پاس عضلات صدر، پسلی اور اس کے ارد گرد اذیت دہ سخت قسم کا ورم ہوتا ہے۔ اور ایسا بھی ہے کہ پسلی میں ہونے والے ہر درد کو ذات الجنب کہتے ہیں اس وجہ سے کہ مقام درد وہاں ہوتا ہے اس لیے ذات الجنب کے معنی صاحبہ الجنب ہے اور یہاں مقصد ورم پہلو بتانا ہے۔ اس لیے جب کبھی پہلو میں درد ہوتا ہے تو اس کا سبب خواہ کچھ بھی ہو اس کا انتساب اسی جانب سے ہوتا ہے۔
دوسری احادیث کی روشنی میں اگر عود ہندی کو باریک پیس لیا جائے اور گرم زیتون میں ملا کر ماؤف پر جہاں ریاح جمی ہو، ہلکی ہلکی مالش کی جائے یا چند چمچ چاٹ لیا جائے تو اس کا عمدہ علاج ہوگا، یہ دوا نافع ہونے کے علاوہ سوزش دور کرتی ہے اور گندے مواد کو بھی تحلیل کرتی ہے جس سے یہ بیماری کا خاتمہ ہو جاتی ہے، اعضاء باطنہ کی تقویت کا سبب ہوتا ہے سدوں کو کھولتا ہے اور عود ہندی کا بھی نفع بالکل ایسا ہی ہے۔ [ طب نبوی ص 113 تا114]
عود (قسط) ہندی اور عود (قسط) بحری
سینے میں غلیظ اور فاسد ریاح کے جمع ہو جانے سے جو تکلیف ہوتی ہے عود ہندی اس میں مفید ہے۔ صاحب خواص الادویہ لکھتے ہیں کہ قسط بحری شیرین گرم خشک ہے۔ دماغ کو قوت بخشتی ہے اعضائے رئیسہ کو اور باہ اور جگر اور پٹھوں کو طاقت دیتی ہے۔ ریاح کو تحلیل کرتی ہے۔ دماغی بیماریوں فالج اور لقوہ اور رعشہ میں مفید ہے۔ پیٹ کے کیڑے مارتی ہے، پیشاب اور حیض کو جاری کرتی ہے۔
ذات الجنب پسلی کا ورم ہوتا ہے جو سل اور دق کی طرح بڑی مہلک بیماری ہے اس کا علاج ضروری ہے۔
عود ہندی اور عود بحری دونوں جڑیں ہوتی ہیں اور دونوں کو ملا کر ناس (نسوار) بنانا اور ناک میں ڈالنا ایسے امراض کے لیے بے حد مفید ہے۔ اور یہ دونوں دوائیں پسلی کے ورم میں بھی بہت کام آتی ہیں۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ انصار کے بعض گھرانوں کو زہریلے جانوروں کے کاٹنے اور کان کی تکلیف میں جھاڑنے کی اجازت دی تھی تو انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ذات الجنب کی بیماری میں مجھے داغا گیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اور اس وقت ابوطلحہ، انس بن نضر اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم موجود تھے اور داغنا اگرچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند نہیں ہے مگر بحالت مجبوری ایسے موقع پر اجازت ہے۔ [بخاري از علامه داؤد راز ج: 298، ج: 7]
کچی لسی
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر تشریف لے گئے تو میں نے بکری کا دودھ نکالا اور اس میں کنویں کا تازہ پانی ملا کر (کچی لسی بنا کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیالہ لے کر اسے نوش فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے اور دائیں جانب ایک اعرابی تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی (پانی ملا) دودھ اعرابی کو دے دیا اور فرمایا کہ پہلے دائیں طرف سے کہ پہلے دائیں طرف والے کا حق ہے۔ [ صحيح بخاري، ج: 5612]
کھجور
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس نے مدینہ منورہ کی سات کھجوریں صبح کے وقت کھائیں اسے شام تک زہر نقصان نہیں دے گا۔ [صحیح مسلم، ح:4047]
یہ پھل زچہ اور بچہ کے لیے ربانی غذا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مریم علیہا السلام کو جب عیسی علیہ السلام کی پیدائش سے نوازا تو کھجور کے درخت کے بارے میں فرمایا:
﴿وَهُزِّي إِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَيْكِ رُطَبًا جَنِيًّا﴾
”اور کھجور کے تنے کو پکڑ کر اپنی طرف ہلاؤ تم پر تازہ تازہ کھجوریں گر پڑیں گی۔ “
(19-مريم:25)
گویا یہ مریم علیہا السلام کی زچگی غذا تو تھی ہی عیسی علیہ السلام کو بھی سب سے پہلے اسی درخت کی غذا نصیب ہوئی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نومولود بچے کو سب سے پہلی غذا جسے اردو میں گڑھتی اور عربی میں تحنیک کہتے ہیں کھجور ہی پسند فرمائی۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی پیدائش ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں سب سے پہلے ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی کھجور ہی سے تحنیک کی۔ (مسلم، کتاب الآداب، باب استحباب تحنیک المولود)
خواص
ہر علاقے کی کھجوروں کی اپنی تاثیر ہے لیکن مدینہ منورہ کی کھجور کی خاصیت مذکورہ حدیث سے واضح ہے۔ کھجور، پنیر اور روٹی کے ساتھ ملا کر کھانا سنت ہے۔ اسے سالن کا درجہ بھی دیا گیا، مزاجا گرم ہے، مقوی جگر اور قوت باہ میں بے حد مفید ہے، چلغوزہ کے ساتھ ملا کر کھانے سے عجب نتائج حاصل ہوتے ہیں۔ دوسرے پھلوں کے مقابلے میں جسمانی قوت کی حامل ہے۔ نہار منہ کھانے سے پیٹ کے کیڑے ختم ہوتے ہیں۔ تریاق کا کام بھی دیتی ہے۔ بیک وقت دوا بھی غذا بھی اور پھل بھی ہے۔ مشروب اور مٹھائی بھی ہے تو علاج بھی۔
[زاد المعاد، ج 4، ص: 341]
کُھمبی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”کھمبی کا پانی آنکھ کے لیے شفاء ہے۔“ [صحيح بخاري، ح:5708]
خواص
من و سلویٰ کا جزو ہے، اس کا پانی آنکھ کے لیے شفا قرار دیا گیا ہے۔ اس کے استعمال کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ سرمہ کو کھرل کرتے وقت اس کے پانی کو شامل کر لیا جائے۔ یہ خودرو ہے، کہیں بوئی نہیں جاتی۔ اس کے پتے نہیں ہوتے۔ عموما ساون بھادوں کی بارشوں کے بعد زمین کی سطح اور اندرونی حرارت کے اجتماع سے زمین کے بخاراتی جوہر سے نکل آتی ہے۔ کچی اور پکا کر دونوں طرح استعمال کی جاتی ہے۔ زیادہ استعمال نقصان دہ بھی ہے، تیل میں پکا کر مصالحہ جات کے ساتھ استعمال بہتر ہے۔ [ زاد المعاد، ج 4، ص:359 تا 365]
علامه داؤد راز دہلوی رحمہ اللہ نے صحیح بخاری کی مذکورہ حدیث کی تشریح میں لکھا ہے کہ من وہ سلویٰ حلوہ ہے جو بغیر محنت کے بنی اسرائیل کو ملتا تھا ایسے ہی کھمبی بھی خود بخود اگتی ہے جو ایک جنگلی بوٹی ہے۔ اس کی خاصیت بیان ہو رہی ہے آنکھ میں اس کا عرق ٹپکانا مفید ہے۔ اسے عوام سانپ کی چھتری بھی کہتے ہیں عموماً گندم کے کھیتوں میں ہوتی ہے۔
کھیرا اور ککڑی
عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھجوروں کے ساتھ کھیرا اور کڑی ملا کر کھاتے دیکھا۔ [ابو داؤد: 3735، مسلم: 2043،بخاري: 5447]
کھیرا اور ککڑی (تر) ٹھنڈے ہوتے ہیں۔ دونوں کو ملا کر کھانے سے ان کا مزاج معتدل ہو جاتا ہے۔ کمزور لوگ اسے استعمال کر کے اپنی توانائی بحال کر سکتے ہیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں ہجرت مدینہ کے بعد مجھے بخار ہو گیا میں سخت کمزور ہوگئی، میری والدہ نے بہت تدبیریں کیں آخر مجھے کھجوریں اور کھیرے کھلائے تو میرا جسم ٹھیک ہو گیا۔ [ابوداؤد، كتاب الطب: 3903]
کھیرے کو عربی میں خیار اور ککڑی کو قثاء کہتے ہیں۔ ککڑی اردو نام ہے، پنجابی میں اسے تر کہتے ہیں۔ یہ کھیرے ہی کے ذائقے پر مشتمل ہوتی ہے البتہ اس کی ساخت پتلی اور لمبوتری ہوتی ہے۔ کھیرا اور ککڑی دونوں کی تاثیر ٹھنڈی ہے۔ اور رب کریم کی مہربانی کہ یہ
دونوں ٹھنڈے ٹھنڈے پھل گرمیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔
کلونجی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”موت کے علاوہ ہر مرض کا علاج کلونجی میں موجود ہے۔“ [صحيح بخاري، ح:5687]
آپ نے اچار یا چٹنی میں پڑے ہوئے چھوٹے چھوٹے تکونے سیاہ بیج اکثر دیکھے ہوں گے۔ یہی بیج سالنوں کو ذائقہ دار اور خوشبو دار بنانے کے لیے بھی استعمال کیے جاتے ہیں کلونجی کے نام سے معروف یہ ننھے ننھے بیج اپنے اندر فوائد کا خزانہ رکھتے ہیں۔
کلونجی کی جھاڑیاں تقریباً چالیس سینٹی میٹر بلند ہوتی ہیں خود رو بھی ہوتی ہیں اور بڑے پیمانے پر کاشت بھی کی جاتی ہیں۔ پنجاب، آسام اور ہماچل پردیش میں اب یہ کثرت سے پیدا ہوتی ہیں۔ کلونجی کے بیجوں کی شکل پیاز کے بیجوں سے بہت حد تک ملتی جلتی ہے۔ اس لیے بہت سے لوگ انہیں پیاز کے بیج ہی سمجھتے ہیں لیکن کلونجی کا پودا پیاز کے پودے سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ اصلی کلونجی کی پہچان یہ ہے کہ اسے اگر سفید کاغذ میں لپیٹ کر رکھا جائے تو کاغذ پر چکنائی کے دھبے لگ جاتے ہیں۔ کلونجی کے پھول ہلکے نیلے رنگ کے ہوتے ہیں جن میں آٹھ پنکھڑیاں ہوتی ہیں اور ان پر شہد کی مکھیاں منڈلاتی رہتی ہیں ذیابطیس / شوگر کے مرض پر قابو پانے میں مدد دیتی ہے، ذیابطیس کے مریضوں کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ کلونجی کے سات دانے روزانہ صبح نگل لیا کریں۔ [حواله كلونجي كے كرشمے از حكيم طارق محمود چغتائي ص:9]
خواص
تمام سرد امراض میں تو مفید ہے ہی، گرم خشک امراض میں بھی اس کے فوائد مسلمہ ہیں۔ نفخ کو دور کرتی ہے۔ برص اور بارد کے بخار میں مفید ہے۔ ریاح اور فاسد رطوبات جسمانی کی تحلیل کرتی ہے۔ کلونجی کے چند دانے پیس کر شہد میں ملائیں اور نیم گرم پانی سے خوراک لیں تو گردے، مثانے کی پتھری چند ایام میں تحلیل ہو جاتی ہے۔ دودھ کو جاری کرنے والی اور پیشاب اور حیض آور ہے۔ سرکے میں گرم کر کے پیٹ پر لیپ کرنے سے پیٹ کے کیڑے مار دیتی ہے۔ کلونجی کا تیل پانی میں ملا کر پئیں تو ضیق النفس (سانس کی تنگی) میں فائدہ دیتا ہے۔ عورت کے دودھ میں سات دانے پیس کر ملا کر یرقان زدہ کے ناک میں ڈالیں تو بے حد مفید ہوگا۔ [زاد المعاد، ج: 4 ص: 399,398]
خالد بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم باہر گئے ہوئے تھے اور ہمارے ساتھ حضرت غالب بن ابریزہ رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ وہ راستہ میں بیمار پڑ گئے پھر جب ہم مدینہ واپس آئے تو اس وقت بھی وہ بیمار ہی تھے۔ حضرت ابن ابی عتیق رضی اللہ عنہ ان کی عیادت کے لیے تشریف لائے اور ہم سے کہا کہ انہیں سیاہ دانے (کلونجی) استعمال کراؤ، اس کے پانچ یا سات دانے لے کر پیس لو اور پھر زیتون کے تیل میں ملا کر ناک کے اس طرف اور اس طرف قطرہ قطرہ کر کے ٹپکاؤ کیوں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ کلونجی ہر بیماری کی دوا ہے سوا سام کے۔ میں نے عرض کیا گیا: سام کیا ہے؟ فرمایا کہ موت ہے۔[بحواله طب نبوي اور جديد سائنس از ڈاكٹر خالد غز نوٹي]
کلونجی یعنی کالا زیرہ، پھوڑا پھنسیوں میں بھی بہت مفید ہے۔ ازواج مطہرات میں سے کسی ایک کی انگلی میں پھنسی نکلی ہوئی تھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تمہارے پاس زیرہ ہے تو انھوں نے کہا: ہاں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زیرہ اس پر رکھ ۔ [صحيح بخاري از علامه داؤد راز دهلوي ص: 284]
مکھی کا پَر
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہارے کسی مشروب میں مکھی گر جائے تو ساری مکھی کو مشروب میں ڈبو کر باہر نکال دو، کیوں کہ اس کے ایک پر (جس کے بل وہ مشروب میں گرتی ہے، بایاں پر) میں بیماری ہے جب کہ دوسرے پر (جس کو ڈبونے کا حکم دیا جارہا ہے، دایاں پر) میں شفا ہے۔ [صحيح بخاري، ح:5782]
سنن ابن ماجہ کی روایت کے مطابق فرمان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح ہے کہ مکھی کے ایک پر میں زہر ہے اور دوسرے میں شفا ہے۔ جب کھانے میں گرتی ہے تو اسے ڈبو دیا کرو کیوں کہ زہر والے پر کے بل گرتی ہے اور شفاء والے پر کو اونچا رکھتی ہے۔ [سنن ابن ماجہ، ح:3504]
خواص
یہاں بھی معاملہ دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ اسلام ایک طرف تو طہارت، پاکیزگی اور صفائی کا علمبردار ہے جب کہ دوسری جانب مکھی جیسے حشرہ کو کھانے میں گرنے کے بعد اسے نکالنے نہیں بلکہ ایک دفعہ ڈبونے کا حکم دے رکھا ہے، دراصل یہ بات تو واضح ہے کہ اسلام اصلاح احوال و انفس کا شیدا ہے۔ یقینا مذکور عمل میں بہتری ہی موجود ہے کیوں کہ دوسرے پر میں موجود شفاء کے عناصر نہ صرف پہلے پر کے زہر کا تریاق ہیں بلکہ اس سے زیادہ شفاء کے اجزا اس میں چھوڑ دیتے ہیں۔ اسی لیے اسلام نے مشروب کو پھینکنے کا حکم نہیں دیا بلکہ اسے استعمال کرنے کا ہی کہا ہے کیوں کہ یہ حب انسانی سے ہٹ کر حُب الہی سے متعلق ہے۔ [زاد المعاد، ج 4، ص: 111]
صحیحین میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب تم میں سے کسی کے برتن میں مکھی گر جائے تو اسے غوطہ دے لیا کرو اس لیے کہ اس کے دونوں بازوؤں میں سے ایک میں بیماری اور دوسرے میں شفاء ہے۔
سنن ابن ماجہ میں ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”مکھی کے ایک بازو میں زہر اور دوسرے میں شفاء ہے جب کبھی کھانے میں مکھی گر جائے تو اس کو غوطہ دے دو اس لیے کہ وہ زہر کے بازو کو آگے اور شفاء والے بازو کو مؤخر کرتی ہے۔“
طبعی حیثیت سے تو ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مکھی کو غوطہ دو تا کہ شفاء کا جز جو دوسرے بازو میں ہے وہ مصلح کے طور پر کھانے میں آ جائے اور ہر بیماری و زہر کا حصہ نکل جانے یا شفاء کا حصہ مل جانے سے اس کی قوت ختم ہو جائے۔
اطباء کی ایک بڑی جماعت نے اسی طریقہ علاج کے متعلق لکھا ہے کہ بھڑ اور بچھو کے ڈنگ کی جگہ پر مکھی کا رگڑنا نہایت درجہ مفید ہے۔ اس سے ڈنگ کی سوزش سے سکون ملتا ہے۔ [طب نبوي ص: 148 تا 150]
امام بخاری رحمہ اللہ نے علاج کے بیان میں یہ باب قائم کیا ہے کہ ”باب کیا مرد کبھی عورت کا یا کبھی عورت مرد کا علاج کر سکتی ہے۔“
ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوات میں شریک ہوتی تھیں اور مسلمان مجاہدوں کو پانی پلاتیں ان کی خدمت کرتیں اور مقتولین اور مجروحین کو مدینہ منورہ لایا کرتی تھیں۔
اس حدیث سے یہ بھی نکلا کہ شرعی پردہ صرف اس قدر ہے کہ عورت اپنے وہ اعضاء جن کا چھپانا غیر محرم سے فرض ہے وہ چھپائے رکھے، نہ یہ کہ گھر سے باہر ہی نہ نکلے۔
پرہیز و احتیاط (اول)
شیخ الاسلام امام ابن القیم رحمہ اللہ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب زاد المعاد کے آخر میں یہ تحریر درج فرمائی ہے کہ میں اس کتاب کو پر ہیز کے بارے میں چند سودمند، منفعت بخش وصیتوں پر ختم کرنا مناسب سمجھتا ہوں، جس سے کہ اس کتاب کی منفعت کو چار چاند لگ جائیں گے۔ ابن ماسویہ کی کتاب میں پرہیز و احتیاط کی بحث میں ایک فصل میری نظر سے گزری جس کو میں بلا کم و کاست ان ہی کے الفاظ میں نقل کر رہا ہوں۔
ابن ماسویہ بیان کرتے ہیں کہ جو چالیس روز تک پیاز کھائے اور اسے جھائیں ہو جائے تو وہ خود کو ملامت کرے اور جس نے فصد کیا پھر نمک کھالیا جس کے سبب اس کو برص یا خارش ہوئی تو وہ خود کو ملامت کرے۔
جس نے مچھلی اور انڈہ ایک ساتھ استعمال کیا اور وہ لقوہ یا فالج کا شکار ہو جائے، تو خود کو قابل ملامت تصور کرے اور جو شکم سیر ہو کر حمام میں داخل ہو اور اس پر فالج کا حملہ ہو جائے تو خود پر لعن طعن کرے۔
جس نے نبیذ کے ہمراہ دودھ پی لیا جس کی وجہ سے وہ برص یا نقرس کی بیماری میں مبتلا ہو جائے تو تعجب کی بات نہیں۔
جو شخص ابالا ہوا ٹھنڈا انڈہ استعمال کرے جس سے امتلاء ہو گیا تو اس کو دمہ کی بیماری ہونا متعین ہے۔ آئینہ دیکھے اور اسے لقوہ ہو جائے یا کوئی اور بیماری میں مبتلا ہو جائے تو کچھ عجب نہیں۔
پرہیز و احتیاط (دوم)
(صحت کا راز )
ابن بخت یشوع کا مقولہ ہے کہ انڈا اور مچھلی ایک ساتھ کھانے سے پر ہیز کرو اس لیے کہ ان دونوں کو استعمال کرنے سے قولنج بواسیر اور داڑھ کے درد ہوتے ہیں۔
انڈے کا دائمی استعمال چہرے پر سیاہی زردی مائل جھائیں پیدا کرتا ہے۔ نمک اسود، مچھلی نمکین اور حمام کے بعد فصد کرنے سے خارش اور برص کی بیماری پیدا ہوتی ہے۔
بکری کے گردے کا دائمی استعمال بانجھ پن پیدا کرتا ہے۔ اور تر و تازہ مچھلی کھانے کے بعد ٹھنڈے پانی سے غسل کرنے سے فالج پیدا ہوتی ہے۔
حائضہ عورت سے مباشرت کرنا جذام کے لیے پیش خیمہ ہے۔ اور جماع کے بعد بغیر غسل کیے دوبارہ جماع کرنے سے پتھری پیدا ہوتی ہے۔ عورت کی شرمگاہ میں زیادہ دیر تک عضو خاص کو ڈالے رہنا شکم میں بیماری پیدا کرتا ہے۔
بقراط کا قول ہے کہ مضر چیزوں کی قلت نفع بخش چیزوں کی کثرت سے بہتر ہے اور صحت کی دائمی حفاظت تکان سے پیدا ہونے والی سستی سے بچنے اور بھر پور کھانے پینے سے پر ہیز کرنے سے ممکن ہے۔
بعض اطباء کا کہنا ہے کہ جو اپنی صحت برقرار رکھنا چاہے اسے عمدہ غذا استعمال کرنی چاہیے۔ پوری طرح پیٹ خالی ہونے کے بعد کھانا چاہیے، اور غیر معمولی تشنگی کے وقت پانی پینا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی پانی کم مقدار میں پینا چاہیے۔ دوپہر کے کھانے کے بعد آرام اور شام کے کھانے کے بعد چہل قدمی کرنی چاہیے، اور پیشاب و پاخانہ سے فراغت کے بعد سونا چاہیے۔ شکم سیری کی حالت میں حمام میں داخل ہونے سے بچنا چاہیے۔ موسم گرما میں ایک مرتبہ حمام کرنا موسم سرما کے دس مرتبہ حمام سے بہتر ہے۔ اور خشک باسی گوشت رات میں کھانا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ سن رسیدہ عورتوں سے مباشرت جوانوں کو بوڑھا بنا دیتی ہے، اور صحت مند کو مریض بنا دیتی ہے۔ اس روایت کی نسبت حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی طرف کی گئی ہے۔ مگر یہ صحیح نہیں ہے، بلکہ یہ عرب کے مشہور طبیب حارث بن کلدہ ثقفی کا کلام ہے یا اس کے علاوہ کسی دوسرے کا کلام ہے۔
جب حارث کی موت کا وقت آیا تو لوگ اس کے پاس آئے اور کہا کہ ہمیں کوئی آخری نصیحت کیجیے کہ ہم اس پر عمل کرتے رہیں، انھوں نے یہ نصیحت کی:
صرف جوان عورتوں سے شادی کرو، پھل درخت پر پکا ہوا استعمال کرو، اور اسی موسم میں کھاؤ، جب تک جسم میں قوت برداشت ہو دوا سے پر ہیز کرتے رہو۔ ہر مہینہ معدہ کو صاف کر لیا کرو، اس سے بلغم صاف ہو جائے گا، اور صفراء ختم ہو جائے گا، اور گوشت پیدا ہوگا۔ اور جب کوئی دو پہر کا کھانا کھائے تو اسے کھانے کے بعد ایک گھنٹہ آرام کرنا چاہیے، اور شام کا کھانا کھانے کے بعد چالیس قدم چلنا ضروری ہے۔
بعض سلاطین نے اپنے معالج سے کہا کہ آپ کی زندگی کا کوئی اعتبار نہیں اس لیے مجھے کوئی ایسا نسخہ لکھ دو کہ میں اس پر عمل کرسکوں، اس پر معالج نے کہا کہ دیکھو صرف جوان عورت سے شادی کرنا صرف جوان جانوروں کا گوشت استعمال کرنا، اور بغیر کسی بیماری کے کوئی دوا نہ پینا اور پختہ پھل استعمال کرنا اور اسے خوب چبا چبا کر کھانا، اگر دن میں کھانا کھا کر آرام کر لو تو کوئی مضائقہ نہیں اور رات میں کھانا کھانے کے بعد چہل قدمی کر لیا کرو پھر سو جاؤ خواہ 50 قدم ہی چل لیا کرو۔ کھانے کی خواہش کے بغیر کھانا نہ کھاؤ۔ پیشاب نہ روک رکھنا۔ حمام اس وقت کرو جب کہ اس سے تم کو نفع پہنچے اس وقت حمام نہ کرو جس سے تمہارے بدن کا کوئی حصہ فنا ہو جائے۔ کھانا معدہ میں موجود ہونے کی صورت میں ہرگز نہ کھانا۔ ایسی چیز کھانے سے بچنا جس کو دانت چبانے کی استطاعت نہ رکھیں، کیونکہ معدہ کو اس کے ہضم کرنے میں دشواری سے دوچار ہونا پڑے گا۔ ہر ہفتہ معدہ کو صاف کرنا ضروری سمجھو اور خون بدن کا بیش بہا خزانہ ہوتا ہے، اس لیے اسے بلاضرورت ضائع نہ کرنا اور حمام کیا کرو، کیونکہ یہ بدن کے اندرونی حصوں سے ان فضلات کو نکال باہر کرتا ہے جن کو دوائیں خارج نہیں کر پاتیں۔
امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ چار چیزیں جسم کو قوی بناتی ہیں:
● گوشت خوری ● خوشبو سونگھنا ● جماع کے لیے بکثرت غسل کرنا ● کتان کا تیار کردہ لباس زیب تن کرنا۔
اور چار چیزیں بدن کو کمزور کرتی ہیں:
● برے خیالات لانا ● ہمہ وقت رنج و غم کرنا ● نہار منہ کافی مقدار میں پانی پینا ● ترش چیزوں کا زیادہ استعمال۔
چار چیزوں سے نگاہ کو تقویت ملتی ہے:
● کعبہ کے سامنے بیٹھنا ● سونے کے وقت سرمہ استعمال کرنا ● سرسبز و شاداب چیزوں کی طرف دیکھنا ● اور نشست گاہ کو صاف ستھرا رکھنا۔
چار چیزوں سے قوت جماع بڑھتی ہے:
● گردن کا گوشت کھانا، ● اطریفل کا استعمال ● پستہ ● سرکہ روٹی کھانا۔
چار چیزوں سے عقل بڑھتی ہے:
● غیر ضروری باتوں سے بچنا ● مسواک کرنا ● بزرگوں کی صحبت اختیار کرنا ● علماء کی مجلس میں حاضر ہونا۔
(ملاحظہ کیجیے آداب الشافعي ص:323 الآداب الشرعية 390/20 اور شرح القاموس 416/7)
افلاطون کا قول ہے: پانچ چیزوں سے بدن کی کاہلی ہوتی ہے، بلکہ بعض اوقات موت سے بھی ہمکنار کر دیتی ہے۔
صنعت کار کا بے کار رہنا، دوستوں کی جدائی، غیظ و غضب کو پی جانا، نصیحت کو ٹھکرانا، جاہلوں کا عقل مندوں سے تمسخر و استہزاء۔
مامون کے معالج کا قول ہے کہ ایسے شخص کی عادتوں کو اختیار کرو جو ان کی بخوبی رعایت کرتا ہو تو توقع ہے موت کے علاوہ کسی بیماری میں مبتلا نہ ہو گے۔ البتہ موت تو بہر حال لا علاج ہے۔
معدہ میں کھانا موجود رہنے کی حالت میں مزید کھانا کبھی نہ کھانا، ایسی غذا کبھی نہ استعمال کرنا جس کے چبانے سے منہ تھک جائے کیونکہ ایسے کھانے کو معدہ ہرگز ہضم نہ کر پائے گا۔ بلاضرورت فصد نہ کرانا، موسم گرما میں قے ضرور کرنا چاہیے۔
بقراط کے جامع کلام میں سے ہے کہ حرکت کثیر طبیعت کی دشمن ہے۔
حکیم جالینوس سے دریافت کیا گیا کہ تمہارے بیمار نہ ہونے کا کیا راز ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میں دوردی غذا یکجا نہیں کرتا، کھانے پر کھانا نہیں کھاتا، اور نہ میں کسی ایسی غذا کو معدہ میں جگہ دیتا ہوں جو اس کے لیے تکلیف دہ ہو۔
زیادہ سونے سے چہرے پر زردی آجاتی ہے۔ دل اندھا ہو جاتا ہے، اور آنکھ میں ہیجان برپا ہو جاتا ہے۔ اور کام کرنے میں سستی چھائی رہتی ہے اور جسم میں رطوبات زیادہ ہوتی ہیں۔
اور زیادہ کھانا معدے کے منہ کو فاسد کرتا ہے جسم کو کمزور لاغر بناتا ہے، ریاح غلیظ اور مشکل بیماریوں سے دو چار کرتا ہے۔
بکثرت جماع کرنے سے بدن لاغر ہو جاتا ہے، اعضاء کمزور ہو جاتے ہیں اور بدن کے رطوبات خشک ہو جاتے ہیں۔ یہ اعصاب کو ڈھیلا کرتا ہے،سدے پیدا کرتا ہے اور اس کے ضرر کا اثر سارے بدن کو پہنچتا ہے، بالخصوص دماغ کو تو بہت نقصان پہنچتا ہے۔ اس لیے کہ روح نفسانی غیر معمولی طور پر تحلیل ہو جاتی ہے۔ اور منی کے زیادہ اخراج کی وجہ سے اس میں اکثر کمزوری پیدا ہوتی ہے اور کثرت جماع سے جو روح کا اکثر حصہ اس سے نکل جاتا ہے۔
جماع کرنے کی بہترین صورت یہ ہے کہ جماع اس وقت کیا جائے، جب کہ خواہش غیر معمولی طور پر ابھرے اور اسی لڑکی سے جماع کرنا مقصود ہو جو انتہائی جمیل و شکیل نو خیز ہو، اور اسی کے ساتھ حلال بھی ہو اور جماع کرنے والے کے مزاج میں حرارت اور رطوبت پورے طور پر ہو۔ اور یہ اسی انداز پر عرصے سے چلا آ رہا ہو، اور دل اعراض نفسانی سے بالکل خالی ہو۔ نہ افراط جماع ہو اور نہ امتلاء مفرط ہو جس کی وجہ سے ترک جماع مناسب ہو۔ نہ خالی پیٹ ہو، اور نہ کسی استفراغ سے دوچار ہو اور نہ کوئی سخت محنت کی ہو اور نہ بہت زیادہ حرارت ہو اور نہ بہت زیادہ برودت ہو، جب کوئی شخص جماع کے وقت ان دس باتوں کو ملحوظ رکھے گا تو اس سے بہت نفع حاصل ہوگا اور اگر ان میں سے کوئی ایک بات مفقود ہوگی تو ضرر بھی اسی حساب سے کم و بیش ہوگا، اگر اکثر یا تمام باتیں مفقود ہوں تو پھر ایسے جماع سے تباہی مقدر ہے۔
چند مفید احتیاطی تدابیر
بہت زیادہ پر ہیز جس سے تخلیط مرض ہو، صحت کے لیے سود مند نہیں، بلکہ اعتدال کے ساتھ پرہیز مفید ہوتا ہے۔ حکیم جالینوس نے اپنے ہم نشینوں کو ہدایت کی کہ تین چیزوں سے بچتے رہو اور چار چیزوں کو اختیار کر لو۔ پھر تم کو کسی معالج کی ضرورت نہ پیش آئے گی۔ گردو غبار، دھواں اور بد بودار گندی چیزوں سے خود کو دور رکھو، چکنائی، خوشبو شیرینی اور حمام کو استعمال کرو اور شکم سیری کی حالت میں کھانا نہ کھاؤ اور بادروج (ایک مشہور سبزی کا نام ہے جو دل کو بہت مضبوط کرتی ہے اور قبض پیدا کرتی ہے مگر فضلات کے ساتھ مل کر اسحال پیدا کرتی ہے۔) اور ریحان کو ساتھ استعمال کرو۔ اور شام کے وقت اخروٹ نہ کھانا، اور جو زکام میں مبتلا ہو وہ چت نہ سوئے، اور رنجیدہ شخص ترش چیز نہ کھائے اور فصد کرانے والا شخص تیز روی نہ اختیار کرے اس لیے کہ یہ موت کا پیش خیمہ ہے، اور جس کی آنکھ میں تکلیف ہے وہ قے نہ کرے، موسم گرما میں زیادہ گوشت کا استعمال نہ کرو سردی کی وجہ سے بخار کا مریض دھوپ میں نہ سوئے، اور پرانے بیج دار بینگن کے قریب بھی نہ جاؤ۔ جو موسم سرما میں روزانہ ایک پیالی گرم پانی پی لے تو وہ بہت سی بیماریوں سے محفوظ ہو گیا اور جس نے حمام کرتے وقت انار کے چھلکے سے اپنے جسم کو ملے، وہ داد و خارش سے نجات پا گیا۔ جس نے سوسن کے پانچ دانے تھوڑی سی مصطگی رومی، عود خام اور مشک کے ہمراہ استعمال کر لیے زندگی بھر اس کا معدہ نہ کمزور ہوگا اور نہ فاسد ہوگا، اور جس نے تخم تربوز شکر کے ساتھ استعمال کیا، اس کا معدہ پتھری سے خالی ہوگا اور ہر سوزش پیشاب سے اسے نجات مل جائے گی۔
چار مفید و مضر چیزوں کا بیان
چار چیزوں سے جسم تباہ ہو جاتا ہے:
● رنج ● غم ● فاقہ کشی ● شب بیداری
چار چیزوں سے فرحت حاصل ہوتی ہے:
● سبز و شاداب چیزوں کی طرف دیکھنا
● آب رواں کا نظارہ کرنا
● محبوب کا دیدار
● پھلوں کا نظارہ کرنا۔
چار چیزوں سے آنکھ میں دھندلا پن پیدا ہوتا ہے:
● ننگے پاؤں چلنا
● صبح و شام نفرت انگیز گراں چیز یادشمن کو دیکھنا
● زیادہ آہ و بکا کرنا
● باریک خطوط کا زیادہ غور سے دیکھنا۔
چار چیزوں سے بدن کو تقویت ملتی ہے:
● نرم و ملائم ملبوسات زیب تن کرنا
● اعتدال کے ساتھ حمام کرنا
● مرغن اور شیریں غذا استعمال کرنا
● عمدہ خوشبو لگانا۔
چار چیزوں سے چہرہ خشک ہو جاتا ہے:
● اس کی شگفتگی، شادابی اور رونق ختم ہو جاتی ہے
● دروغ گوئی، بے حیائی
● جاہلانہ طرز کے سوالات کی کثرت
● فسق و فجور کی زیادتی۔
چار چیزوں سے چہرے پر رونق اور شگفتگی آتی ہے:
● مروت ● و فاداری ● جود و سخاوت ● پرہیز گاری
چار چیزوں سے باہم نفرت و عداوت کا سبب بنتی ہیں: تکبر و گھمنڈ، حسد دروغ گوئی اور چغل خوری۔ چار چیزوں سے روزی بڑھتی ہے: نماز تہجد کی ادائیگی، صبح سویرے بکثرت اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی طلب، صدقہ کا باہم معاہدہ کرنا اور دن کے شروع اور آخر وقت میں
اللہ کا ذکر۔
چار چیزوں سے روزی روک دی جاتی ہے صبح کے وقت سونا، نماز سے غفلت، سستی اور خیانت۔
چار چیزوں سے فہم و ادراک کے لیے ضرر رساں ہیں: ترش چیزوں اور پھلوں کا دائمی استعمال، چت سونا اور رنج و غم کرنا۔
چار چیزوں سے فہم و ادراک کی قوت میں اضافہ ہوتا ہے: فارغ البالی کم خوری و کم آشامی، غذاؤں کا شیریں اور مرغن چیزوں سے عمدہ بنانے کا اہتمام اور ان فضلات کا بدن سے خارج کرنا جو بدن کے لیے گراں ہوں۔
عقل کے لیے متعدد چیزیں ضرر رساں ہیں: ہمیشہ پیاز کھانا، لوبیا، روغن زیتون اور بینگن کا دائمی استعمال، جماع کی کثرت، خلوت نشینی، بے ضرورت افکار و خیالات، مے نوشی، بہت زیادہ ہنسنا اور رنج و غم کرنا، یہ تمام چیزیں عقل کو نقصان پہنچاتی ہیں۔
بعض دانشوروں کا مقولہ ہے کہ مجھے بحث و مناظرہ کی تین مجلسوں میں شکست اٹھانی پڑی۔ جس کا کوئی خاص سبب میری سمجھ میں نہ آسکا، البتہ پہلی مجلس مناظرہ میں شکست کا یہ سبب معلوم ہوا کہ میں نے ان دنوں بکثرت بینگن کا استعمال کیا تھا۔ اور دوسری مجلس میں شکست کا یہ سبب تھا کہ روغن زیتون کا بہت زیادہ استعمال کیا تھا، اور تیسری مجلس میں شکست کا یہ راز معلوم ہوا کہ میں نے لوبیا کی ترکاری بہت کثرت سے کھائی تھی۔
[طب نبوي ص: 526 تا 519]