سوال
بارش کی وجہ سے دو نمازوں کو جمع کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بارش اور سخت کیچڑ وغیرہ کے مواقع پر جمع بین الصلوٰتین (دو نمازوں کو اکٹھا پڑھنا) جائز ہے، جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: ” أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى بِالْمَدِينَةِ سَبْعًا وَثَمَانِيًا: الظُّهْرَ وَالعَصْرَ وَالمَغْرِبَ وَالعِشَاءَ "، فَقَالَ أَيُّوبُ: لَعَلَّهُ فِي لَيْلَةٍ مَطِيرَةٍ، قَالَ: عَسَى۔
(باب تاخیر الظھر الی العصر: ج۱ ص۷۷)
’’رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں (ایک مرتبہ) سات اور آٹھ رکعتیں جمع کر کے پڑھیں، یعنی ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاء کو جمع کیا تھا۔ ابو ایوب سخیتانی نے پوچھا: کیا اس کی وجہ بارش تھی؟ تو جابر بن زید نے کہا: امید ہے کہ ایسا ہی ہوگا۔‘‘
محدثین و فقہاء کی آراء
◄ اگرچہ امام شوکانی رحمہ اللہ نے اس حدیث پر طویل محدثانہ تحقیق و بحث کے بعد اس عمل کو جمع صوری قرار دیا ہے۔
◄ تاہم امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ، جو صاحبِ متقی الاخبار ہیں، انہوں نے اس پر یہ فیصلہ دیا ہے:
وھٰذَا یَدُلُّ بِمَعْنَاہُ عَلَی الجَجْعِ لِلمَطرِ والخوف وللمرض۔
(نیل الاوطار: ج۳ باب جمع المقیم لمطر او لغیرہ ص۲۱۸)
’’یہ حدیث اپنے مفہوم سے بارش، خوف اور مرض کی وجہ سے نمازوں کو جمع کر کے پڑھنے پر دلالت کرتی ہے۔‘‘
امام ترمذی کی تصریح
امام ترمذی رحمہ اللہ اس حدیث کے آخر میں فرماتے ہیں:
قَالَ بَعْضُ أَهْلِ العِلْمِ: يَجْمَعُ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ فِي المَطَرِ، وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ۔
(تحفة الأحوذی)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب