سوال:
شوال کے چھ روزے رکھنا کیسا ہے؟
جواب:
اہل علم کا اتفاق ہے کہ شوال کے چھ روزے مشروع و مستحب ہیں۔ ان کے ثبوت میں متواتر احادیث وارد ہوئی ہیں۔ علامہ کتانی رحمہ اللہ نے اسے نظم المتناثر من الحديث المتواتر (ص 134) میں ذکر کیا ہے۔
سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من صام رمضان ثم أتبعه ستا من شوال، كان كصيام الدهر
جس نے ماہ رمضان کے روزے رکھے، پھر شوال کے چھ روزے رکھے، اس نے گویا سال بھر کے روزے رکھے۔
(صحیح مسلم: 1164)
سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا:
بكل يوم عشر؟ قال: نعم
کیا ہر دن کے بدلے دس روزوں کا ثواب ملے گا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔
(مصنف عبد الرزاق: 7918، معجم ابن المقرئ: 615، وصححه أبو عوانة: 2699، وسندہ صحیح)
❀ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قد استحب قوم صيام ستة أيام من شوال بهذا الحديث
اس حدیث کی روشنی میں لوگوں کی ایک جماعت نے شوال کے چھ روزوں کو مستحب کہا ہے۔
(سنن الترمذي، تحت الحديث: 759)
❀ امام عبدالرزاق رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
به نأخذ
ہمارا عمل اسی حدیث کے موافق ہے۔
(مصنف عبد الرزاق: 7918)
امام عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هو حسن، هو مثل صيام ثلاثة أيام من كل شهر
(شوال کے چھ روزوں کا) یہ عمل مستحب ہے۔ اس کا اجر و ثواب ہر ماہ تین روزے رکھنے کی طرح ہے۔
(سنن الترمذي، تحت الحديث: 759)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من صام رمضان وأتبعه بست من شوال فكأنما صام الدهر
جس نے رمضان کے بعد شوال کے چھ روزے بھی رکھے، اس نے گویا پورا سال روزے رکھے۔
(مسند البزار [كشف الأستار]: 1060، وسندہ حسن)
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من صام ستة أيام بعد الفطر كان تمام السنة، من جاء بالحسنة فله عشر أمثالها
جس نے عید الفطر کے بعد چھ روزے رکھے، اس نے پورا سال روزے رکھے، کیونکہ جو ایک نیکی کرتا ہے، اسے دس گنا ثواب ملتا ہے۔
(سنن ابن ماجه: 1715، وسندہ حسن)
❀ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
جعل الله الحسنة بعشر فشهر بعشرة أشهر وستة أيام بعد الفطر تمام السنة
اللہ تعالیٰ نے ایک نیکی کو دس گنا کر دیا ہے، لہذا (رمضان کے) ایک مہینے کے روزے دس مہینوں کے برابر ہیں اور شوال کے چھ روزے ساٹھ روزوں کے برابر ہیں۔
(السنن الكبرى للنسائي: 2874، وسندہ صحیح)
ایک روایت میں ہے:
صيام رمضان بعشرة أشهر، وصيام الستة أيام بشهرين، فذلك صيام السنة
رمضان کے روزے دس مہینے کے روزوں کے برابر ہیں اور (شوال کے) چھ روزے دو مہینوں کے برابر ہیں، یوں یہ پورے سال کے روزے ہوئے۔
(صحيح ابن خزيمة: 2115، وسندہ صحیح)
❀ امام حسن بصری رحمہ اللہ کے بارے میں ہے:
آپ کے پاس جب بھی چھ روزوں کا ذکر ہوتا، جو کہ بعض لوگ رمضان کے بعد نفل کے طور پر رکھتے ہیں، تو فرماتے تھے: بلاشبہ اللہ تعالیٰ اس مہینے کے ذریعے پورے سال کے روزوں سے راضی ہو گیا ہے۔
(مصنف ابن أبي شيبة: 3/96، وسندہ صحیح)
امام شافعی رحمہ اللہ (شرح النووی: 1/369) اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (المغنی لابن قدامة: 3/172) ان روزوں کے استحباب کے قائل ہیں۔ اسی طرح شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ (حجة اللہ البالغة: 2/85) بھی ان کی مشروعیت کے قائل ہیں۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے منسوب کراہت کا قول باسند صحیح ثابت نہیں۔ کوئی ثقہ امام شوال کے چھ روزوں کی عدم مشروعیت کا قائل نہیں۔ ضعیف اور بے سند اقوال کا کوئی اعتبار نہیں۔
❀ علامہ کاسانی حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
ليس بمكروه بل هو مستحب وسُنة
یہ روزے مکروہ نہیں، بلکہ مستحب سنت ہیں۔
(بدائع الصنائع: 2/78)
❀ فقہ حنفی میں ہے:
لكن عامة المتأخرين لم يروا به بأسا
اکثر متاخرین (حنفی علما) شوال کے روزوں میں کوئی حرج خیال نہیں کرتے۔
(البحر الرائق شرح كنز الدقائق: 2/278، منحة الخالق لابن عابدين: 2/278)
شیخی زاده حنفی رحمہ اللہ (1078ھ) لکھتے ہیں:
عید الفطر کے بعد شوال کے چھ روزے مکروہ نہیں، یہ مختار قول ہے۔ کیونکہ رمضان اور شوال کے درمیان عید الفطر کے ایک دن کا فاصلہ آ جاتا ہے۔ اس سے اہل کتاب کے ساتھ تشبہ لازم نہیں آتا، لہذا یہ روزے مکروہ نہیں، بلکہ مستحب سنت ہیں، کیونکہ اس بارے میں حدیث وارد ہوئی ہے۔
(مجمع الأنهر: 1/255)