نفل روزہ جان بوجھ کر توڑ دے، تو کیا حکم ہے؟

سوال:

نفل روزہ جان بوجھ کر توڑ دے، تو کیا حکم ہے؟

جواب:

نفل روزہ عمداً توڑ دے، تو کوئی حرج نہیں۔ اس پر قضا واجب نہیں، بلکہ مستحب ہے۔ جمہور اہل علم کا مذہب ہے کہ کسی نفل کام کو شروع کیا جائے، تو اختتام تک نفل ہی رہتا ہے، واجب نہیں ہوتا، سوائے نفلی حج اور عمرہ کے۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ نفل جب تک شروع نہ کر دیے جائیں، نفل رہتے ہیں، لیکن جب ادا کرنا شروع کر دیا تو مکمل کرنا واجب ہے، مکمل نہ کرنے پر قضا لازم ہے۔
❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
دخل علي النبي صلى الله عليه وسلم ذات يوم فقال: هل عندكم شيء؟ فقلنا: لا، قال: إذن أصوم، ثم دخل علينا يوما آخر فقلنا: يا رسول الله أهدي لنا حيس، فقال: أرينيه فلقد أصبحت صائما، ثم أكله
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن میرے پاس آئے اور پوچھا: کیا گھر میں کھانا موجود ہے؟ عرض کیا: جی نہیں۔ فرمایا: تب میں روزے سے ہوں، پھر کسی اور دن تشریف لائے، تو ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! تحفے میں حلوہ آیا ہے، فرمایا: لائیں، ویسے تو صبح میں نے روزہ رکھا تھا، پھر آپ نے حلوہ کھا لیا۔
(صحیح مسلم: 1154)
حافظ نووی رحمہ اللہ (676ھ) لکھتے ہیں:
دوسری روایت امام شافعی رحمہ اللہ اور آپ کے موافقین کی دلیل ہے، کہ نفلی روزہ توڑ کر کچھ کھا لینا جائز ہے، اس سے روزہ فاسد ہو جائے گا۔ کیونکہ یہ نفل ہے اور نفل جیسے ابتدا میں انسان کی مرضی پر ہوتا ہے، ویسے ہی اسے جاری رکھنا بھی مرضی پر موقوف ہے۔ یہ موقف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت، امام احمد رحمہ اللہ، امام اسحاق رحمہ اللہ وغیرہ کا ہے، لیکن امام شافعی رحمہ اللہ سمیت تمام اسے مکمل کرنا مستحب سمجھتے ہیں۔
(شرح النووي: 8/35)
سیدہ جویریہ بنت حارث رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
دخل النبي صلى الله عليه وسلم يوم الجمعة وأنا صائمة، فقال: أصمت أمس؟ قلت: لا، قال: أتريدين أن تصومي غدا؟ قلت: لا، قال: فأفطري
جمعہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں آئے، میں روزے سے تھی، پوچھا: کل آپ نے روزہ رکھا تھا؟ عرض کیا: نہیں۔ فرمایا: آئندہ کل کا ارادہ ہے؟ عرض کیا: نہیں، فرمایا: تو پھر افطار کر دیں۔
❀ ایک روایت میں ہے:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روزہ افطار کرنے کا حکم دیا۔
(صحیح البخاری: 1986)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (852ھ) فرماتے ہیں:
یہ حدیث دلیل ہے کہ نفلی عبادت کا آغاز کرنے پر اسے مکمل کرنا ضروری نہیں۔ روزوں میں تو یہ واضح نص ہے اور باقی عبادات میں اس پر قیاس کیا جائے گا۔ اگر کوئی کہے کہ پھر تو حج میں بھی ایسا ہی ہونا چاہیے! ہم کہیں گے کہ نہیں، حج اس سے مستثنیٰ ہے، کیونکہ حج فاسد ہو جائے، تب بھی اسے جاری رکھنا ضروری ہے، چہ جائیکہ حج کو درمیان میں چھوڑ دیا جائے۔ اسی طرح فرض حج کی طرح نفل حج میں بھی کفارہ لازم ہوتا ہے لہذا اسے دیگر عبادات پر قیاس کرنا درست نہیں۔
(فتح الباری: 1/107)
حافظ بیہقی رحمہ اللہ نے باب قائم کیا ہے:
باب صيام التطوع والخروج منه قبل تمامه
نفلی روزہ اور اسے مکمل کرنے سے پہلے افطار کا بیان۔
(السنن الكبرى: 4/455)
سیدنا ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
آخى النبي صلى الله عليه وسلم بين سلمان وأبي الدرداء، فجاء سلمان إلى أبي الدرداء فرآى أم الدرداء متبذلة، فقال: ما هذا؟ قالت: أخوك أبو الدرداء ليس له حاجة في الدنيا، فجاء أبو الدرداء فقرب طعاما، فقال: كل، قال: إني صائم، قال: ما أنا بآكل حتى تأكل، فأكل
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ میں مواخات قائم کی۔ سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ، سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ سے ملنے آئے، تو دیکھا کہ سیدہ ام درداء رضی اللہ عنہا کی حالت پراگندہ ہے۔ پوچھا: یہ کیا؟ کہا: آپ کے بھائی ابو درداء رضی اللہ عنہ کو دنیا کی کوئی غرض نہیں۔ سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ آئے اور سلمان رضی اللہ عنہ کے لیے کھانا پیش کیا۔ سلمان رضی اللہ عنہ نے کہا: کھائیے، فرمایا: میں روزے سے ہوں۔ فرمایا: آپ کھائیں گے تو میں کھاؤں گا، تو سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ نے کھا لیا۔ اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سلمان نے درست کیا۔
(صحیح البخاری: 1968)
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم کیا ہے:
باب من أقسم على أخيه ليفطر في التطوع، ولم ير عليه قضاء إذا كان أوفق له
کسی پر قسم اٹھائی کہ وہ نفل روزہ افطار کر دے گا، اب اگر اس نے روزہ افطار کر دیا ہے، تو اس پر قضا نہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
ترجمۃ الباب سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس حدیث میں نفلی روزہ افطار کرنے کا جواز ہے۔ جمہور کا یہی مذہب ہے، نیز روزہ توڑنے والے پر قضا ضروری نہیں، البتہ مستحب ہے۔
(فتح الباری: 4/212)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے