سوال:
اگر رمضان کو بھی چاند نظر نہ آئے، تو کیا کرے؟
جواب:
اگلے دن عید کی جائے۔ چاند دیکھنے کا جو حکم ہے، وہ انتیس تاریخ کو ہے، جب تیس دن پہلے ہی مکمل ہیں، تو اس کے بعد چاند کی رؤیت ضروری نہیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
صوموا لرؤيته وأفطروا لرؤيته، فإن غم عليكم فأكملوا ثلاثين
چاند دیکھ کر روزے رکھیں اور چاند دیکھ کر روزے چھوڑیں، پھر اگر مطلع ابر آلود ہو، تو تیس دن گن کر پورے کر لیں۔
(صحیح البخاری: 1909، صحیح مسلم: 1081)
❀ عبد اللہ بن ابی قیس رحمہ اللہ کہتے ہیں:
مجھے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا گیا کہ میں ان سے چاند نظر نہ آنے کی صورت میں رمضان کا روزہ رکھنے اور نماز عصر کے بعد (نفل) نماز پڑھنے کے متعلق پوچھوں۔ چنانچہ میں نے ان کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: فلاں آپ کو سلام کہتا ہے، انہوں نے مجھے آپ کے پاس نماز عصر کے بعد (نفل) نماز پڑھنے، روزوں میں وصال کرنے اور ماہ رمضان میں روزوں کے متعلق پوچھنے کے لیے بھیجا ہے۔ انہوں نے حدیث کا کچھ حصہ بیان کیا، کہتے ہیں: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم باقی مہینوں کے ایام اس قدر نہیں گنا کرتے تھے، جس قدر شعبان کے ایام گنا کرتے تھے، پھر رمضان کا چاند دیکھ کر روزہ رکھتے، اگر چاند نظر نہ آتا تو (شعبان کے) تیس دن شمار کرتے، پھر روزہ رکھتے۔
(مسند الامام احمد: 6/149، سنن ابی داود: 2325، وسندہ صحیح)
اس حدیث کو امام ابن الجارود رحمہ اللہ (377)، امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (1910) اور امام ابن حبان رحمہ اللہ (3444) نے صحیح کہا ہے، امام حاکم رحمہ اللہ (1/423) نے بخاری اور مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے (السنن: 157/2) اس کی سند کو حسن صحیح قرار دیا ہے۔