عید کے چاند کے لیے کتنے آدمیوں کی گواہی ضروری ہے؟
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

عید کے چاند کے لیے کتنے آدمیوں کی گواہی ضروری ہے؟

جواب:

ایک ثقہ عادل مسلمان بھی گواہی دے دے، تو اس کی گواہی مانی جائے گی۔ یاد رہے کہ عید اور روزہ کی گواہی ایک جیسی ہے۔
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
تراءى الناس الهلال، فأخبرت رسول الله صلى الله عليه وسلم، أني رأيته فصامه، وأمر الناس بصيامه
لوگوں نے ہلال دیکھا، تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ میں نے چاند دیکھا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (رمضان کا) روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی حکم دیا۔
(سنن ابی داود: 2342، سنن الدارقطنی: 2156، وسندہ صحیح)
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (3447) نے صحیح، امام حاکم رحمہ اللہ (1/324) نے امام مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے موافقت کی ہے۔
❀ حافظ خطابی رحمہ اللہ (388ھ) فرماتے ہیں:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا روزے کے معاملہ میں صرف ایک شخص کی بات کو قبول کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اخبار آحاد پر عمل کرنا واجب ہے، نیز خبر دینے والا صرف ایک ہی شخص ہو یا لوگوں کی ایک جماعت خبر دے، کوئی فرق نہیں پڑتا۔
(معالم السنن: 2/102)
ابو عمیر بن انس رضی اللہ عنہ کے چچا جو صحابی رسول ہیں، بیان کرتے ہیں:
ہمیں شوال کا چاند نظر نہ آیا، تو ہم نے صبح کو روزہ رکھ لیا، پھر پچھلے پہر ایک قافلہ آیا اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر گواہی دی کہ انہوں نے کل چاند دیکھا ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس دن روزہ افطار کرنے اور اگلے دن عیدگاہ جانے کا حکم دیا۔
(مسند الامام احمد: 5/86، سنن ابی داود: 1157، سنن النسائی: 1558، سنن ابن ماجہ: 1653، وسندہ صحیح)
اس حدیث کو امام ابن الجارود رحمہ اللہ (266) نے صحیح قرار دیا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے