سوال:
عرفہ کا روزہ رکھنا کیسا ہے؟
جواب:
نو ذو الحجہ کا روزہ مشروع و مستحب ہے۔ اس کی بڑی فضیلت ہے۔
سیدنا ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یوم عرفہ کے روزے کے متعلق پوچھا گیا، تو فرمایا:
يكفر السنة الماضية والباقية
یہ روزہ گذشتہ اور آئندہ سال کے (صغیرہ) گناہوں کا کفارہ ہے۔
(صحیح مسلم: 1162)
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
صوم عرفة كفارة سنتين
عرفہ کا روزہ دو سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ: 3/97، مسند عبد بن حمید: 464، مسند ابی یعلیٰ الموصلی: 7548، وسندہ حسن)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں ہے:
كانت تصوم يوم عرفة
آپ رضی اللہ عنہا عرفہ کا روزہ رکھتی تھیں۔
(مؤطا الامام مالک: 1/375، وسندہ صحیح)
❀ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قد استحب أهل العلم صيام يوم عرفة، إلا بعرفة
اہل علم نے عرفات میں موجود حجاج کے علاوہ باقی سب کے لیے عرفہ کے روزے کو مستحب قرار دیا ہے۔
(سنن الترمذی، تحت الحدیث: 749)
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ بن سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کے مطابق یوم عرفہ کے روزے کے قائل تھے۔
(سنن الترمذی، تحت الحدیث: 752)
❀ سیدہ ام فضل بنت حارث رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
إن ناسا تماروا عندها يوم عرفة في صوم النبي صلى الله عليه وسلم، فقال بعضهم: هو صائم، وقال بعضهم: ليس بصائم، فأرسلت إليه بقدح لبن وهو واقف على بعيره، فشربه
میرے پاس بعض لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عرفہ کے دن روزے کے بارے میں اختلاف کیا، بعض نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا روزہ ہے اور بعض نے کہا کہ آپ کا روزہ نہیں ہے۔ تو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دودھ کا پیالہ بھیجا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اونٹنی پر سوار تھے، تو آپ نے وہ دودھ نوش فرمالیا۔
(صحیح البخاری: 1988، صحیح مسلم: 1123)
اس حدیث پر امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ باب قائم کیا ہے:
باب صوم يوم عرفة
یوم عرفہ کے روزے کا بیان۔
❀ شارح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
راوی کے قول: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روزے کے متعلق میں اشارہ ہے کہ صحابہ کے ہاں یوم عرفہ کا روزہ معروف تھا اور حضر میں رکھا جاتا تھا۔ جن صحابہ نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے میں ہیں، ان کے مدنظر یہ تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عبادت سے جڑے رہتے تھے۔ لہذا آج بھی روزے سے ہوں گے۔ جن صحابہ نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا روزہ نہیں ہے، ان کے پیش نظر یہ قرینہ تھا کہ آپ مسافر ہیں اور جب سفر میں فرض روزے کی ممانعت ہے، تو نفل کی بالا اولیٰ ہے۔
(فتح الباری: 4/237)
دراصل روزہ نو ذو الحجہ کا ہے، چونکہ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عرفات میں تھے، اس مناسبت سے اس کا نام صوم عرفہ قرار پایا۔ وہی دن چل کر ہم تک پہنچتا ہے۔ عرفات والے دن روزہ رکھنا ہر ایک کے لیے ممکن نہیں، کیونکہ سعودی عرب میں جب عرفہ کا دن طلوع ہوتا ہے، تو دنیا کے کئی ممالک میں اس وقت رات طلوع ہوتی ہے، تو کیا وہ رات کا روزہ رکھیں گے؟ پاکستان کا وقت سعودی سے دو گھنٹے آگے ہے، وہاں یوم عرفہ ابھی طلوع نہیں ہوا ہوتا کہ پاکستان میں سحر کا وقت ختم ہو جاتا ہے اور وہاں یوم عرفہ ختم نہیں ہوا ہوتا کہ پاکستان میں افطار ہو جاتا ہے۔ جب سعودی سے نماز کے اوقات میں فرق ہے، تو روزہ ان کے موافق کیسے ممکن ہے؟
حجاج کرام اگر مشقت محسوس نہ کریں، تو عرفہ کا روزہ رکھ سکتے ہیں، اس بارے میں ممانعت والی روایت ثابت نہیں۔
یہ روزہ نو ذو الحجہ کا ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ نو ذو الحجہ کو عرفات میں تھے، اس مناسبت سے اسے یوم عرفہ کا روزہ کہہ دیا گیا، واللہ اعلم!