سوال :
وتر کی نماز میں دعائے قنوت کے وقت ہاتھ اٹھانا ثابت ہے یا نہیں؟
جواب :
حدیث سے ثبوت
سب سے پہلے یہ بات واضح کر دی جائے کہ رسول کریم ﷺ سے دعائے قنوت (وتر میں) رفع یدین یعنی ہاتھ اٹھانا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔
البتہ سنن ابن ماجہ میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، «كَانَ يُوتِرُ فَيَقْنُتُ قَبْلَ الرُّكُوعِ. وقالَ السِندِیُّ فِی حَاشِية وفِی الزوائد اسناده صحیح ورجاله ثقات۔
(سنن ابن ماجه: ص۲۵۹ ج۱ طبع مصر)
’’رسول اللہ ﷺ وتروں میں رکوع سے پہلے قنوت پڑھتے تھے۔‘‘
اس روایت میں صرف قنوت پڑھنے کا ذکر ہے، لیکن تمام محققین کے نزدیک نبی اکرم ﷺ سے وتر میں قنوت کا ثبوت نہیں ملتا بلکہ یہ صرف نماز فجر سے متعلق ہے۔
علماء کی وضاحت
امام ابو طاہر مجد الدین محمد بن یعقوب فیروز آبادیؒ فرماتے ہیں:
لن یرد فی الصحیح انه صلی اللہ عليه واله وسلم قرأ القنوت فی صلاة الوتر أصلا۔ قال الامام احمد کل ما ثبت فی القنوت فمجموعة فی صلوة الصبح ولم یثبت فی الوتر اصلا بل لم یرو لکن جماعة من الصحابة کانو یقرؤن القنوت فی صلوة الوتر لحدیث مسند الامام احمد عن الحسن بن علی رضی اللہ عنہ قال علمنی رسول اللہ ﷺ کلمات أقولھن فی قنوت الوتر ’’اللھم اھدنی فیمن ھدیت۔۔۔ الخ‘‘.
(سفر السعادة: ص۳۷)
یعنی:
◄ نبی اکرم ﷺ سے وتر میں قنوت پڑھنا ثابت نہیں۔
◄ البتہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دعائے قنوت وتر میں پڑھا کرتے تھے، کیونکہ آپ ﷺ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو یہ دعا سکھائی تھی: اللھم اھدنی فیمن ھدیت۔۔۔ الخ
رفع یدین (ہاتھ اٹھانے) کا طریقہ
◄ دعائے قنوت میں ہاتھ ویسے ہی اٹھائے جائیں جیسے عام دعا مانگتے وقت اٹھائے جاتے ہیں۔
◄ یہ رفع یدین، تکبیر تحریمہ کی طرح نہیں ہوگا۔
آثارِ صحابہ و تابعین
مندرجہ ذیل آثار سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ دعائے قنوت میں ہاتھ دعا کی طرح اٹھائے جاتے تھے:
- عن الأسود: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ قنوت میں اپنے ہاتھوں کو سینے تک اٹھاتے تھے۔
- عن أبي عثمان النهدي: حضرت عمر رضی اللہ عنہ قنوت میں ہاتھ اس طرح اٹھاتے کہ بغلوں کا حصہ ظاہر ہو جاتا۔
- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رمضان میں قنوت کے وقت ہاتھ اٹھاتے تھے۔
- عن أبي قلابة ومكحول: دونوں رمضان کے قنوت میں ہاتھ اٹھایا کرتے تھے۔
(قیام اللیل مروزی: ص۱۳۴، تحفة الأحوذی: ص۳۴۳ ج۱)
محدثین کی آراء
◄ محدث عبدالرحمان مبارکپوریؒ:
الظَّاهِرُ مِنْهَا ثُبُوتُ رَفْعِ الْيَدَيْنِ كَرَفْعِهِمَا فِي الدُّعَاءِ۔
(تحفة الأحوذی شرح ترمذی: ۳۴۳ ج۱)
◄ امام طحاویؒ نے بھی قنوت میں دعا کی طرح ہاتھ اٹھانے کو ثابت کیا ہے:
وَقَد كَانَ فِی اٰخِرِ عُمُرِہِ رای رفع الیدین فِی الدُعاء فی الوتر۔
(مختصر الطحاوی: ص۲۸ طبع مصر)
یعنی امام ابو یوسفؒ آخری عمر میں دعائے قنوت میں ہاتھ اٹھاتے تھے۔
خلاصہ
◄ قنوت میں رفع یدین کسی صحیح مرفوع حدیث سے ثابت نہیں۔
◄ لیکن عمومِ دعا کے دلائل اور آثار صحابہ سے یہ بات واضح ہے کہ ہاتھ دعا کی طرح اٹھائے جائیں گے، نہ کہ تکبیر تحریمہ کی طرح۔
سوال نمبر ۲: نبی کریم ﷺ کتنی رکعت وتر پڑھا کرتے تھے؟
صحیح احادیث کے مطابق
◄ ۱، ۳، ۵، ۷، ۹، ۱۱ اور ۱۳ رکعت وتر نبی ﷺ سے ثابت ہیں۔
◄ شاہ ولی اللہؒ فرماتے ہیں:
قُلتُ فِی قَول أَکثَرِھِم أقلُّ الوِترِ رَکعَة وَأکثرُہُ اِحدی عشرة أو ثلث وما زاد فھو أفضل وعند الحنفیة الوتر ثلاث لا یزید ولا ینقص۔
(مسوی برحاشیہ مصفی: ص۱۲۷)
حدیثِ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ
قَالَ قَالَ رَسُول اللہﷺ لا توتروا بثَلاثٍ لا تشبھُوا بالمَغربِ وَلٰکن أوترُوا بکمس أو بسبع بتسع أو باحدی عشرة أو أکثر من ذلک۔
قال العراقی اسنادہ صحیح۔
(نیل الأوطار: ص۴۱ ج۳ باب الوتر برکعة وبثلاث وخمس وسبع وتسع)
یعنی: تین رکعت اس طرح نہ پڑھو کہ مغرب کی نماز سے مشابہت پیدا ہو۔ بلکہ پانچ، سات، نو یا گیارہ رکعت سے وتر پڑھو۔
حدیثِ عائشہ رضی اللہ عنہا
سعد بن ہشام روایت کرتے ہیں:
يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ أَنْبِئِينِي عَنْ وَتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ … فَقَالَتْ: … يُصَلِّي تِسْعَ رَكَعَاتٍ … ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ بَعْدَمَا يُسَلِّمُ … فَتلك إِحْدَى عشرَة رَكْعَة … فَلَمَّا أَسَنَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ … أَوْتَرَ بِسَبْعٍ … فَتِلْكَ تِسْعٌ۔
(مشکوة المصابیح: ۱۱۱ ج۱ باب الوتر)
یعنی:
◄ آپ ﷺ عموماً گیارہ رکعت وتر پڑھتے تھے۔
◄ بڑھاپے میں نو رکعت پڑھنے لگے۔
◄ ان رکعتوں میں سے ایک رکعت وتر کی ہوتی تھی۔
نتیجہ
◄ دعائے قنوت میں رفع یدین کا ثبوت براہِ راست صحیح حدیث سے نہیں، بلکہ آثارِ صحابہ و تابعین سے ملتا ہے، اور ہاتھ دعا کی طرح اٹھانے چاہئیں۔
◄ وتر کی رکعات مختلف صورتوں سے ثابت ہیں، زیادہ تر آپ ﷺ گیارہ یا نو رکعت پڑھتے تھے۔