مستدرک حاکم کی روایت اور دعائے قنوت کے راویوں کی تحقیق
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ جلد ۱، صفحہ ۵۰۷

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین مستدرک حاکم کی اس روایت کے بارے میں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت حسان رضی اللہ عنہ کو رکوع کے بعد وتر میں دعائے قنوت پڑھنے کا حکم دیا؟ اس روایت کے راوی کیسے ہیں؟
(مستدرک جلد نمبر ۳، ص ۱۷۲)

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

پہلی روایت

سند: حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ صَالِحِ بْنِ هَانِئٍ، وَأَبُو سَعِيدٍ عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مَنْصُورٍ قَالَا: ثنا الْفَضْلُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ الشَّعْرَانِيُّ، ثنا أَبُو بَكْرٍ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ شَيْبَةَ الْحِزَامِيُّ، ثنا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ عَمِّهِ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ:

عَلَّمَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وِتْرِي إِذَا رَفَعْتُ رَأْسِي وَلَمْ يَبْقَ إِلَّا السُّجُودُ: «اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ، وَعَافِنِي فِيمَنْ عَافَيْتَ، وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ، وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ، وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ، إِنَّكَ تَقْضِي وَلَا يُقْضَى عَلَيْكَ، إِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ، تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ»

حاکم فرماتے ہیں: ھذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین الا أن محمد بن جعفر بن أبی کثیر خالف اسماعیل بن ابراھیم بن عقبة فی اسنادہ۔

دوسری روایت

سند: حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الزَّاهِدُ الصَّفَّارُ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ السُّلَمِيُّ، وَحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حَمْشَاذٍ الْعَدْلُ، ثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ الْبَزَّارُ، وَالْفَضْلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْبَيْهَقِيُّ قَالُوا: ثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ وَثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، ثنا أَبُو إِسْحَاقَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ أَبِي الْحَوْرَاءِ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ:

عَلَّمَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ فِي الْوِتْرِ: «اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ، وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ، وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ، فَإِنَّكَ تَقْضِي وَلَا يُقْضَى عَلَيْكَ، وَإِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ، تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ»

(مستدرک امام حاکم: کتاب معرفة الصحابة باب ومن مناقب الحسن والحسن ابنی بنت رسول اللہ ﷺ، ص۱۲۲)

شیخ البانی کی وضاحت

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

◈ قبل الرکوع والی متعدد روایات ذکر کرنے کے بعد تصریح فرماتے ہیں: لكن رواه الحاكم (3 / 172) وعنه البيهقي (3 / 38 – 39) من طريقين آخرين عن الفضل بن محمد بن المسيب الشعراني به بلفظ: إذا رفعت رأسي ولم يبق إلا السجود .

◈ یہ الفاظ پہلی روایت کے مخالف ہیں۔
◈ واللہ اعلم۔
◈ اسناد حسن ہے، رجال سب ثقہ ہیں اور رجال بخاری میں سے ہیں، سوائے "الشعرانی” کے۔
◈ حاکم نے کہا: (ثقة لم یطعن فيه بحجة)۔
◈ اسی وجہ سے حاکم نے اس حدیث کے بارے میں کہا: صحیح علی شرط الشیخین الا ان محمد بن جعفر بن أبی کثیر قد خالف اسماعیل بن ابراھیم بن عقبة فی اسنادہ۔

◈ پھر حاکم نے اسے موسیٰ بن عقبہ → ابو اسحاق → یزید بن ابی مریم → ابو الحوراء → حسن بن علی کے طریق سے ذکر کیا۔

حافظ ابن حجر کی رائے

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ "التلخيص” (ص ۹۴) میں فرماتے ہیں:

تنبيه: ينبغي أن يتأمل قوله في هذا الطريق إذا رفعت رأسي ولم يبق إلا السجود، فقد رأيت في الجزء الثاني من فوائد أبي بكر أحمد بن الحسين بن مهران الأصبهاني تخريج الحاكم له قال: ثنا محمد بن يونس المقري قال: ثنا الفضل بن محمد البيهقي….

◈ پھر حافظ نے اسی سند سے ابن مندہ کی روایت کا ذکر کیا جس میں یہی زیادتی کے الفاظ موجود ہیں۔
◈ ابن یونس المقری کو خطیب نے اپنی "تاریخ” (۳/۴۴۶) میں ترجمہ کیا ہے اور ان کو ثقہ کہا ہے۔
◈ اس بنیاد پر حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ میری رائے اسی زیادتی والے لفظ کے ترجیح کی طرف مائل ہے کیونکہ اس کی متابعت ثابت ہو چکی ہے۔ (ارواء الغلیل: ج۲، ص ۱۶۸، ۱۶۹ – ارواء الغلیل فی تخریج احادیث منار السبیل)

نوٹ: شیخ البانی نے بھی اس روایت کے بارے میں کہا کہ اس کے ثبوت میں نظر ہے (ارواء الغلیل ج۲، ص۱۷۷)۔

دوسری سند کے بارے میں شیخ البانی کا قول

◈ دوسری روایت کے بارے میں لکھتے ہیں: قُلْتُ ھٰذَا اسْنَادٌ صحیحٌ رِجالُهُ کُلُّھُم ثِقَةٌ وَ تَابَعَهُ أَبُوْ اِسْحَاقَ وَالبیھقی عَن یزید بن ابی مریم به۔

خلاصہ

◈ دونوں سندیں اپنی اپنی جگہ معتبر ہیں۔
◈ بعض محدثین نے الفاظ "إذا رفعت رأسي ولم يبق إلا السجود” کو ترجیح دی ہے۔
◈ مجموعی طور پر یہ روایت سنداً صحیح اور قابلِ عمل ہے۔
ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے