سوال
کیا ایک رکعت وتر پڑھنا بھی جائز ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگرچہ رسول اللہﷺ کا معمول مبارک یہی تھا کہ آپ تین وتر دو سلاموں کے ساتھ ادا فرمایا کرتے تھے، تاہم شریعت میں صرف ایک رکعت وتر ادا کرنا بھی جائز ہے۔ اس بارے میں متعدد احادیث اور آثارِ صحابہ موجود ہیں، جن سے اس عمل کا جواز واضح طور پر ثابت ہوتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی حدیث مبارکہ
1. ایک رکعت وتر کی وضاحت:
عن ابن عمر وابْنَ عَبَّاسٍ انھما:
سَمِعْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «الْوِتْرُ رَكْعَةٌ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ»
(رواہ احمد ومسلم، نیل الأوطار: ج۲ص۳۳)
حضرت ابن عمرؓ اور حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریمﷺ سے سنا، آپﷺ نے فرمایا:
"وتر رات کی آخری نماز ہے، جو ایک رکعت ہوتی ہے۔”
حضرت ابن عمرؓ کا عمل
2. وتر کی ادائیگی میں فاصلہ اور ایک رکعت کی وضاحت:
عَن ابن عمر أَنَّهُ کَانَ یُسَلِّمُ بَیْنَ الرَّکعتینِ وَالرَّکْعَة فِی الوِترِ حَتّٰی أنه کَانَ یأمُرُ بِبعضِ حَاجته۔
(رواہ البخاری، نیل الاوطار: ج۳ ص۳۳، و بخاری ج۱ ص۱۳۰ باب ما جاء فی الوتر)
حضرت ابن عمرؓ دو رکعت پڑھ کر سلام پھیرتے، پھر کسی ضرورت کا حکم دیتے، اس کے بعد ایک رکعت وتر ادا کرتے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی وضاحت
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ حضرت ابن عمرؓ کے اس عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگرچہ آپ عام طور پر ایک سلام کے ساتھ تین وتر ادا کرتے تھے، لیکن اگر کوئی ضرورت پیش آتی تو تین وتر دو سلاموں کے ساتھ پڑھتے تھے۔
3. مزید وضاحت ایک اور روایت سے:
عن بکر بن عبداللہ المزنی قال صلی ابن عمر رکعتین ثم قال یا غلام ارحل لنا ثم قام وأوتر برکعة
(روایت سعید بن منصور بسند صحیح)
بکر بن عبداللہ المزنی بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمرؓ نے دو رکعت نماز پڑھی، پھر اپنے غلام سے کہا: "سواری تیار کرو”، اس کے بعد ایک رکعت وتر ادا کی۔
امام طحاوی حنفی کی روایت
4. وتر اور شفع میں سلام کے ذریعے جدائی:
عَنْ ابْنِ عُمَرَ «أَنَّهُ كَانَ يَفْصِلُ بَيْنَ شَفْعِهِ وَوِتْرِهِ بِتَسْلِيمَةٍ، وَأَخْبَرَ أَنَّ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – كَانَ يَفْعَلُهُ»
وَإِسْنَادُهُ قَوِيٌّ
حضرت ابن عمرؓ اپنے شفع (دو رکعت) اور وتر (ایک رکعت) کے درمیان سلام کے ذریعے فاصلہ کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ نبی کریمﷺ بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔ اس روایت کی سند بھی قوی ہے۔
احادیث و آثار کی روشنی میں نتیجہ
مندرجہ بالا تمام صحیح اور قوی احادیث و آثار سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ایک رکعت وتر پڑھنا جائز ہے۔
جمہور علماء اور صحابہ و تابعین کا موقف
اس موقف کی تائید جمہور علمائے کرام نے کی ہے۔ ان میں شامل ہیں:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم:
- خلفائے راشدین
- سعد بن ابی وقاص
- معاذ بن جبل
- ابی بن کعب
- ابو موسیٰ اشعری
- ابو درداء
- حذیفہ
- ابن مسعود
- ابن عمر
- ابن عباس
- معاویہ
- تمیم داری
- ایوب انصاری
- ابو ہریرہ
- فضالہ بن ابی عبید
- بن زبیر وغیرہ رضی اللہ عنہم
تابعین رحمہم اللہ:
- سالم بن عبداللہ بن عمر
- عبد اللہ بن عبد اللہ بن عیاش بن ابی ربیعہ
- حسن بصری
- محمد بن سیرین
- عطاء بن ابی رباح
- عقبہ بن عبد الغافر
- سعید بن جبیر
- نافع بن جبیر بن مطعم
- جابر بن زید
- زہری
- ربیعہ بن ابی عبدالرحمٰن
ائمہ کرام رحمہم اللہ:
- امام مالک
- امام شافعی
- امام احمد بن حنبل
- امام اوزاعی
- اسحاق بن راہویہ
- امام ابو ثور
- امام داؤد
- امام ابن حزم
یہ تمام صحابہ، تابعین، اور ائمہ اس بات کے قائل تھے کہ ایک رکعت وتر پڑھنا جائز ہے۔
ھذا ما عندي، واللہ أعلم بالصواب