رمضان میں بے نمازی حافظ قرآن کو تراویح کا امام بنانا؟
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ ج1، ص492

سوال

ایک حافظ قرآن جو پانچ وقت کی نماز کا پابند نہیں، صرف رمضان میں باقاعدگی سے نماز پڑھتا ہے اور باقی دنوں میں زیادہ تر نماز ترک کر دیتا ہے۔ کیا رمضان میں ایسے شخص کو تراویح کا امام مقرر کیا جا سکتا ہے؟ نیز وہ ہمیشہ انگریزی اسٹائل کے بال رکھتا ہے۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایسا شخص جو نمازوں میں سستی کرتا ہے اور انگریزی انداز کے بال بنواتا ہے، وہ امامت جیسے عظیم منصب کے لائق نہیں ہے۔ امامت ایک نہایت اہم اور مقدس مقام ہے۔ حتیٰ کہ ایک پرہیزگار اور اسلامی وضع رکھنے والے شخص کو بھی اگر وہ نماز میں قبلہ رخ تھوکنے جیسا عمل کر لے تو امامت سے معزول کر دیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں کئی احادیث موجود ہیں:

پہلی حدیث

عَنِ السَّائِبِ بْنِ خَلَّادٍ أَنَّ رَجُلًا أَمَّ قَوْمًا فَبَصَقَ فِي الْقِبْلَةِ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْظُرُ إِلَيْهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ فَرَغَ: "لَا يُصَلِّي لَكُمْ” فَأَرَادَ بَعْدَ ذَلِكَ أَنْ يُصَلِّيَ لَهُمْ فَمَنَعُوهُ وَأَخْبَرُوهُ بِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذُكِرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فقَالَ: "نَعَمْ”، وَحَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ: "إِنَّكَ آذَيْتَ الله ورسوله۔
(اخرجه ابو داؤد وسکت عليه والمنذری) عون المعبود: ص۱۸۱ج۱، نیل الاوطار: ص۱۸۶ج۳ باب ما جاء فی امامة الغاسق

ترجمہ:
’’ایک شخص نے لوگوں کو نماز پڑھاتے ہوئے قبلہ کی طرف تھوک دیا اور رسول اللہ ﷺ بھی دیکھ رہے تھے۔ جب اس نے نماز مکمل کی تو آپ ﷺ نے فرمایا: یہ شخص اب تمہیں نماز نہ پڑھائے۔ بعد میں جب وہ دوبارہ امامت کے لئے آیا تو لوگوں نے اسے روک دیا اور بتایا کہ نبی ﷺ نے تمہیں امامت سے ہٹا دیا ہے۔ جب اس نے آپ ﷺ سے رجوع کیا تو آپ ﷺ نے تصدیق کرتے ہوئے فرمایا: ہاں! تم نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو تکلیف دی ہے۔‘‘

یہ حدیث ابن حبان میں بھی موجود ہے۔
(عون المعبود) مزید دیکھیے:
زوائد ابن حبان (ص۲۰۳)

دوسری حدیث

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: أَمَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا يُصَلِّي لِلنَّاسِ صَلَاةَ الظُّهْرِ، فَتَفَلَ فِى الْقِبْلَةِ وَهُوَ يُصَلِّي لِلنَّاسِ، فَلَمَّا كَانَ صَلَاةُ الْعَصْرِ أَرْسَلَ إِلَى آخَرَ، فَأَشْفَقَ الرَّجُلُ الْأَوَّلُ، فَجَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولُ أَنَزَلَ فيَّ؟، قَالَ: «لَا، وَلَكِنَّكَ تَفَلْتَ بَيْنَ يَدَيْكَ، وَأَنْتَ تَؤُمُّ النَّاسَ، فَآذَيْتَ اللهَ وَمَلَائِكَتَهُ۔
(رواه الطبرانی فی الکبیر باسناد جید (عون) المعبود ج۱ص۱۸۱)

ترجمہ:
’’رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو ظہر کی نماز کے لئے امام مقرر فرمایا۔ اس نے نماز کے دوران قبلہ کی طرف تھوک دیا۔ اس پر نبی ﷺ نے عصر کی نماز کے لئے دوسرا شخص مقرر کر دیا۔ جب وہ شخص پریشان ہو کر حاضر ہوا اور وجہ پوچھی تو آپ ﷺ نے فرمایا: تم نے قبلہ رخ تھوک کر نماز کے دوران اللہ اور اس کے فرشتوں کو تکلیف دی ہے۔‘‘

امامت کے لئے سب سے بہتر شخص کا انتخاب

جب ایک پرہیزگار اور نیک شخص کو بھی چھوٹی سی لغزش (جیسے قبلہ رخ تھوکنے) پر امامت سے ہٹا دیا جا سکتا ہے تو ایک ایسا حافظ قرآن جو صرف رمضان میں نماز پڑھتا ہے اور انگریزی انداز کے بال رکھتا ہے، وہ امامت کے کیسے اہل ہو سکتا ہے؟

حق امامت صرف افضل اور بہتر شخص کو ہی پہنچتا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے:

أَبِي مَرْثَدٍ الْغَنَوِيِّ، وَكَانَ، بَدْرِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنْ سَرَّكُمْ أَنْ تُقْبَلَ صَلَاتُكُمْ، فَلْيَؤُمَّكُمْ خِيَارُكُمْ، فَإِنَّهُمْ وُفُودُكُمْ فِيمَا بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ رَبِّكُمْ۔
(اخرجه الحاکم فی ترجمة مرثد الغنوی (نیل الأوطار: ص۱۸۶ج۳))

ترجمہ:
’’اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری نمازیں قبول ہوں تو پھر لازم ہے کہ تمہاری امامت بہترین اور نیک لوگوں کے ہاتھ میں ہو، کیونکہ امام تمہارے اور اللہ کے درمیان سفیر ہوتا ہے۔‘‘

حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما

قال قال رسول اللہﷺ اِجْعلُو اثمتَکُمْ خِیَارَکُمْ فانَّھُمْ وَفْدکُم فیمَا بَینکُم وَبَینَ رَبکُم۔
(رواه الدارقطنی وفی اسنادہ سلام بن سلیمان وھو ضعیف، کذا فی النیل: ص۱۸۴ ج۳)

علماء کا قول

نیل الاوطار میں یہ وضاحت موجود ہے کہ:

"اختلاف اشراط عدالت میں ہے، نفس صحت نماز میں نہیں۔ لأن کُلَّ مَن صَحتُصلوته لنفسه صحت لغیره”
(ص۱۸۰ج۳)

خلاصہ

ایسا حافظ قرآن جو نمازوں کا پابند نہیں اور انگریزی بال رکھتا ہے، وہ خود نماز کا چور اور رسول اللہ ﷺ کا نافرمان ہے، لہٰذا اسے امام نہیں بنایا جانا چاہیے۔ اگر کبھی مجبوری یا غیر اختیاری حالات میں اس کے پیچھے نماز پڑھنی پڑ جائے تو نماز ادا ہو جائے گی، لیکن اگر اس سے بہتر کوئی دوسرا شخص موجود ہو تو امامت کا حق اسی کو دیا جائے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے