سوال
تہجد کی نماز پڑھنے میں زیادہ ثواب ہے یا تراویح کی نماز پڑھنے میں؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
تراویح اور تہجد دراصل ایک ہی نماز ہیں۔ اگر رات کے آخری حصے میں باجماعت تراویح پڑھنے کا انتظام ہو سکے تو یہ افضل ہے۔ لیکن اگر آخری حصے میں جماعت میسر نہ ہو، تو پھر اول وقت میں باجماعت تراویح ادا کرنا، انفرادی طور پر آخری حصے میں پڑھنے سے زیادہ بہتر ہے۔
واللہ اعلم
تراویح کی رکعات کے بارے میں صحیح احادیث
صحیح احادیث کی روشنی میں قیام رمضان (تراویح) کی سنت تعداد صرف آٹھ رکعات اور تین وتر ہے۔ رسول اللہ ﷺ رمضان اور غیر رمضان میں آٹھ رکعت سے زیادہ قیام نہیں فرمایا کرتے تھے۔ کسی صحیح حدیث میں یہ ذکر موجود نہیں کہ آپ ﷺ نے رمضان کی کسی رات میں، خواہ جماعت سے یا انفرادی طور پر، آٹھ سے زائد رکعت قیام (تراویح) ادا کی ہو۔ ذیل میں آٹھ رکعات پر مبنی چند احادیث پیش ہیں:
➊ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت
عن عائشة رضی اللہ عنه قَالَتْ: مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلاَ فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً۔
(صحیح بخاری: ج۱ ص۱۵۴ باب قیام النبیﷺ۔ مؤطا امام محمد ۱۴۲ باب قیام شھر رمضان۔ مطبوعه رحیمی۔ صحیح مسلم: ص۲۰۴ ج۱ باب صلوة اللیل وعدد الرکعات)
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات (وتر سمیت) سے زیادہ قیام نہیں فرماتے تھے۔‘‘
➋ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ ثَمَانَ رَكَعَاتٍ، وَأَوْتَرَ، فَلَمَّا كَانَتِ اللَّيْلَةُ الْقَابِلَةُ اجْتَمَعْنَا فِي الْمَسْجِدِ، وَرَجَوْنَا أَنْ يَخْرُجَ فَيُصَلِّيَ بِنَا، فَأَقَمْنَا فِيهِ حَتَّى أَصْبَحْنَا، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، رَجَوْنَا أَنْ تَخْرُجَ فَتُصَلِّيَ بِنَا، قَالَ: «إِنِّي كَرِهْتُ – أَوْ خَشِيتُ – أَنْ يُكْتَبَ عَلَيْكُمُ۔
(رواہ الطبرانی فی الصغیر ص۱۰۸، ومحمد بن نصر المروزی ص۹۰، وابن حبان، وابن خزیمة فی صحیحہ۔ قال الحافظ الذھبی بعد ذکر ھذا الحدیث: اسناد وسط، میزان الاعتدال: ص۲۱۱ ج۲)
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک رات ہمیں آٹھ رکعات اور وتر پڑھائے۔ ہم نے دوسری رات بھی انتظار کیا لیکن آپ ﷺ تشریف نہ لائے۔ صبح آپ ﷺ نے فرمایا: میں نے اس لیے ناغہ کیا کہ کہیں قیام رمضان تم پر فرض نہ کر دیا جائے۔‘‘
➌ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے بارے میں روایت
جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: جَاءَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ كَانَ مِنِّي اللَّيْلَةَ شَيْءٌ يَعْنِي فِي رَمَضَانَ، قَالَ: «وَمَا ذَاكَ يَا أُبَيُّ؟» ، قَالَ: نِسْوَةٌ فِي دَارِي، قُلْنَ: إِنَّا لَا نَقْرَأُ الْقُرْآنَ فَنُصَلِّي بِصَلَاتِكَ، قَالَ: فَصَلَّيْتُ بِهِنَّ ثَمَانَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ أَوْتَرْتُ، قَالَ: فَكَانَ شِبْهُ الرِّضَا وَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا۔
(رواہ ابو یعلی والطبرانی فی الاوسط، وقال الھیشمی فی مجمع الزوائد ص۷۴ ج۲: إسنادہ حسن، وأخرجه ایضا محمد بن نصر المروزی فی قیام اللیل: ص۹۰)
’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! آج کی رات مجھ سے ایک کام ہو گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ کیا؟ کہا: کچھ عورتیں میرے گھر جمع ہوئیں اور انہوں نے کہا کہ ہم قرآن نہیں پڑھ سکتیں، اس لیے ہم آپ کی نماز کے ساتھ نماز پڑھنا چاہتی ہیں۔ چنانچہ میں نے انہیں آٹھ رکعات اور وتر پڑھا دیے۔ آپ ﷺ نے ان کے اس عمل پر کوئی اعتراض نہ کیا، بلکہ آپ ﷺ کی خاموشی اس بات کی دلیل تھی کہ یہ عمل آپ ﷺ کو پسند آیا۔‘‘
وضاحت
حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ (صحیح بخاری میں مذکور) کو امام محمدؒ، جو امام ابو حنیفہؒ کے شاگرد تھے، اپنی کتاب مؤطا محمد، باب قیام شھر رمضان (ص۱۴۲) میں بھی ذکر کرتے ہیں۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ امام محمدؒ کے نزدیک یہ حدیث قیام رمضان (تراویح) کے بارے میں ہے، نہ کہ تہجد کے بارے میں، جیسا کہ بعض حنفی علما اور مقلدین اس حدیث کو رد کرنے کے لیے یہ تاویل کرتے ہیں۔
ہمارے نزدیک یہ تینوں احادیث اس مسئلے میں نص قطعی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی پوری زندگی میں وتر سمیت گیارہ رکعات قیام (تراویح) سے زیادہ کبھی نہیں پڑھا۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب