سوال
تہجد کی نماز کی جماعت کرائی جاسکتی ہے یا نہیں؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
تہجد کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھائی جاسکتی ہے اور اس میں کسی قسم کی قباحت یا ممانعت نہیں۔ اس سلسلے میں متعدد صحیح احادیث موجود ہیں:
صحیح بخاری سے دلیل
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: بِتُّ فِي بَيْتِ مَيْمُونَةَ لَيْلَةً، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَهَا، لِأَنْظُرَ كَيْفَ صَلاَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِاللَّيْلِ، «فَتَحَدَّثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ أَهْلِهِ سَاعَةً ثُمَّ رَقَدَ، فَلَمَّا كَانَ ثُلُثُ اللَّيْلِ الآخِرُ، أَوْ بَعْضُهُ، قَعَدَ فَنَظَرَ إِلَى السَّمَاءِ فَقَرَأَ» : ﴿إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ﴾ إِلَى قَوْلِهِ ﴿لِأُولِي الأَلْبَابِ﴾ [آل عمران: 190] ، «ثُمَّ قَامَ فَتَوَضَّأَ وَاسْتَنَّ، ثُمَّ صَلَّى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً۔)
(مرعاة المفاتیح شرح مشکوة المصابیح: ص 162، ج 2)
ترجمہ:
حضرت عبد اللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ میں ایک رات اپنی خالہ حضرت میمونہ کے گھر میں سو رہا تھا، اور رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تھے تاکہ میں دیکھ سکوں کہ آپ ﷺ رات کو کس طرح نماز پڑھتے ہیں۔ آپ ﷺ نے کچھ دیر اپنی زوجہ سے گفتگو کی اور پھر سو گئے۔ جب رات کا آخری تہائی حصہ یا کچھ حصہ آیا تو آپ ﷺ بیدار ہوئے، آسمان کی طرف دیکھا اور سورہ آل عمران کی یہ آیت پڑھی:
﴿إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ … لِأُولِي الأَلْبَابِ﴾
[آل عمران: 190]۔
پھر آپ ﷺ نے وضو کیا، مسواک کی اور گیارہ رکعتیں تہجد کی پڑھیں۔ میں نے بھی وضو کیا اور آپ کے بائیں جانب کھڑا ہوگیا۔ آپ ﷺ نے میرا کان پکڑ کر مجھے اپنے دائیں جانب کھڑا کر لیا۔ اس طرح آپ نے تیرہ رکعات نماز تہجد ادا کی۔
متقی الاخبار میں روایت
وقد صح التفل جماعة من روايه ابن عباس وأنس رضى الله عنهما
(نیل الاوطار: ج 2، ص 89)
یعنی: حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت انس سے صحیح سند کے ساتھ تہجد کی جماعت ثابت ہے۔
امام شوکانیؒ کی وضاحت
امام شوکانیؒ فرماتے ہیں:
وحديث أنس المشار إليه أيضاً له ألفاظٌ كثيرةٌ في البخاري وغيرهٖ واحدها أنه قال صليت أنا ويتيم في بيتنا خلف النبيﷺ وأمي أ مٌ سليم خلفنا۔ ألأحاديث، ساقها المصنف هبنا للاستدلال بها علي صلوٰة النوافل جمعاعةٌ وهو كما ذكر وليس للمانع من ذلك متمسِّكٌ يُعارضُ بهٖ هذه الأدلة
(نیل الاوطار: ص 89، ج 2)
ترجمہ:
حضرت انس کی حدیث صحیح بخاری میں مختلف الفاظ کے ساتھ آئی ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ انہوں نے کہا: "میں نے اور یتیم نے اپنے گھر میں نبی کریم ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی اور میری والدہ حضرت ام سلیم ہمارے پیچھے کھڑی تھیں۔”
مصنف نے نفل نماز باجماعت پڑھنے کے جواز میں جو احادیث ذکر کی ہیں وہ بالکل صحیح ہیں، اور ان احادیث کے مقابلے میں باجماعت نفل نماز کے منکرین کے پاس کوئی مضبوط دلیل موجود نہیں۔
نتیجہ
ان تمام دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ تہجد کی نماز باجماعت پڑھائی جاسکتی ہے، اور اس پر کوئی شرعی پابندی نہیں۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب