نماز کے بعد امام کا مقتدیوں کی طرف منہ پھیرنا سنت ہے؟
ماخوذ: فتاویٰ محمدیہ، جلد ۱، صفحہ ۴۳۵

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین کہ نماز سے سلام پھیر کر امام کا اپنے مقتدیوں کی طرف منہ پھیر کر بیٹھنا سنت ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

احادیثِ صحیحہ مرفوعہ متصلہ سے یہ بات واضح طور پر ثابت ہوتی ہے کہ سلام پھیرنے کے بعد امام کا اپنے مقتدیوں کی طرف منہ پھیر کر بیٹھنا بلا شبہ سنت ہے۔

صحیح البخاری کے باب "یستقبل الامام الناس إذا سلم” میں اس موضوع پر کئی احادیث موجود ہیں:

➊ حضرت سمرہ بن جندبؓ کی روایت

عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى صَلاَةً أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ۔ (ص۱۱۷ج۱)
’’حضرت نبی کریمﷺ جب نماز ادا فرما کر سلام پھیرتے تو اپنا چہرۂ انور ہماری طرف کر لیتے تھے۔‘‘

➋ حضرت زید بن خالد جہنیؓ کی روایت

عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الجُهَنِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: صَلَّى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلاَةَ الصُّبْحِ بِالحُدَيْبِيَةِ عَلَى إِثْرِ سَمَاءٍ كَانَتْ مِنَ اللَّيْلَةِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ، فَقَالَ: هَلْ تَدْرُونَ مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ۔۔۔۔الحدیث (صحیح البخاری: ج۱ص۱۱۷)
’’رسول اللہﷺ نے حدیبیہ میں ہمیں صبح کی نماز پڑھائی۔ اس رات بارش ہوچکی تھی۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: کیا تم جانتے ہو تمہارا رب کیا فرماتا ہے؟‘‘

➌ حضرت انس بن مالکؓ کی روایت

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: أَخَّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلاَةَ ذَاتَ لَيْلَةٍ إِلَى شَطْرِ اللَّيْلِ، ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا، فَلَمَّا صَلَّى أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ، فَقَالَ: «إِنَّ النَّاسَ قَدْ صَلَّوْا وَرَقَدُوا، وَإِنَّكُمْ لَنْ تَزَالُوا فِى صَلاَةٍ مَا انْتَظَرْتُمُ الصَّلاَةَ» (صحیح البخاری: ج۱ص۱۱۷)
’’ایک رات رسول اللہﷺ نے عشاء کی نماز آدھی رات تک مؤخر فرمائی۔ پھر باہر تشریف لائے اور نماز پڑھا کر جب فارغ ہوئے تو ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: دوسرے لوگ تو نماز پڑھ کر سو گئے اور تم جب تک نماز کے انتظار میں رہے گویا نماز ہی میں مشغول رہے۔‘‘

➍ حضرت انسؓ کا عمل

وَكَانَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: «يَنْفَتِلُ عَنْ يَمِينِهِ، وَعَنْ يَسَارِهِ، وَيَعِيبُ عَلَى مَنْ يَتَوَخَّى – أَوْ مَنْ يَعْمِدُ – الِانْفِتَالَ عَنْ يَمِينِهِ» (صحیح البخاری: باب الانقثال والانصراف عن الیمین والشمال۔ ج۱ص۱۱۷)
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سلام پھیرنے کے بعد کبھی دائیں اور کبھی بائیں طرف سے متوجہ ہوتے تھے اور اس شخص پر اعتراض کرتے جو صرف دائیں طرف سے پھیرنے کو ضروری سمجھتا۔‘‘

➎ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت

قال عبداللہ لا یجعل احدکم للشیطان شیئا من صلوته یری حَقٌّ عَلَيْهِ أَنْ لَا يَنْصَرِفَ إِلَّا عَنْ يَمِينِهِ لقد رأیت النبیﷺ کثیرا ینصرف عن یساره۔ (صحیح البخاری: ص۱۱۸ج۱)
’’حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: تم میں سے کوئی اپنی نماز میں شیطان کا حصہ نہ کرے کہ یہ سمجھے لازماً دائیں طرف سے ہی پھیرنا ضروری ہے۔ میں نے نبیﷺ کو اکثر بائیں طرف پھرتے دیکھا ہے۔‘‘
یہ حدیث سنن ابوداؤد (باب کیف الانصراف من الصلوٰۃ ص۱۵۹ ج۱) میں بھی مذکور ہے۔

➏ حضرت براء بن عازبؓ کی روایت

عَنِ الْبَرَاءِ، قَالَ: كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَحْبَبْنَا أَنْ نَكُونَ عَنْ يَمِينِهِ، يُقْبِلُ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ۔ (سنن ابی داؤد مع عون المعبود ج۳۳۷ج۱۔ مشکوة ص۱۰۱۔ صحیح مسلم ونیل الاوطار باب الانحراف بعد السلام وقدر اللبس واستقبال المامومین ص۳۰۵ج۳)
’’حضرت براء بن عازبؓ فرماتے ہیں: ہم جب رسول اللہﷺ کے پیچھے نماز پڑھتے تو چاہتے کہ دائیں طرف کھڑے ہوں تاکہ آپ سلام کے بعد ہماری طرف متوجہ ہوں۔‘‘

➐ حضرت یزید بن اسودؓ کی روایت

وَعَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَسْوَدِ قَالَ: «حَجَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – حَجَّةَ الْوَدَاعِ قَالَ: فَصَلَّى بِنَا صَلَاةَ الصُّبْحِ، ثُمَّ انْحَرَفَ جَالِسًا فَاسْتَقْبَلَ النَّاسَ بِوَجْهِهِ۔ الحدیث (نیل الاوطار: ج۲ص۳۰۷)
’’حضرت یزید بن اسودؓ فرماتے ہیں: ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ حجۃ الوداع میں شریک ہوئے۔ آپ نے ہمیں فجر کی نماز پڑھائی اور سلام کے بعد بیٹھے بیٹھے ہماری طرف متوجہ ہوگئے۔‘‘

➑ حضرت انسؓ کی روایت (صحیح مسلم)

عن انس بن مالک قال نظرنا رسول اللہﷺ لیلة حتی کان قریبا من نصف اللیل ثم جاء فصلی ثم اقبل علینا بوجهه فکانماأَنْظُرُ إِلَى وَبِيصِ خَاتَمِهِ فِى يَدِهِ مِنْ فِضَّةٍ۔ (صحیح مسلم: باب وقت العشاء ص۲۲۹ج۱)
’’حضرت انسؓ فرماتے ہیں: ایک رات ہم نصف رات تک عشاء کی نماز کے انتظار میں رہے۔ پھر آپﷺ تشریف لائے، نماز پڑھائی اور سلام پھیر کر ہماری طرف متوجہ ہوگئے۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے ابھی بھی آپ کی چاندی کی انگوٹھی کی چمک دیکھ رہا ہوں۔‘‘

حاصلِ کلام

ان آٹھوں صحیح احادیث سے یہ بات واضح ہوئی کہ رسول اللہﷺ نماز کے بعد سلام پھیر کر مقتدیوں کی طرف متوجہ ہوتے تھے۔ لہٰذا امام کے لیے سنت یہی ہے کہ:

◈ سلام کے بعد اللہ اکبر، استغفراللہ (تین بار)، اللھم انت السلام ومنک السلام پڑھنے کے بعد مقتدیوں کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھے۔
◈ حکمت یہ بیان کی گئی ہے کہ:

✿ مقتدیوں کو وہ تعلیم دی جاسکے جس کی انہیں ضرورت ہو۔
✿ یا باہر سے آنے والے کو یہ معلوم ہوجائے کہ نماز مکمل ہوچکی ہے، کیونکہ اگر امام قبلہ رخ بیٹھا رہے تو آنے والے کو شبہ ہوسکتا ہے کہ ابھی تشہد میں ہے۔

مزید وضاحت

✿ رسول اللہﷺ کبھی دائیں طرف اور کبھی بائیں طرف متوجہ ہوتے تھے۔
✿ ہمیشہ صرف دائیں طرف پھیرنا لازم نہیں ہے، بلکہ دونوں طرف جائز ہے۔
✿ قبلہ رخ بیٹھے رہنا بھی درست ہے، لیکن یہ ہمیشہ کی سنت نہیں۔
✿ اکثری اور دائمی سنت یہی ہے کہ سلام کے بعد مقتدیوں کی طرف منہ پھیر لیا جائے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں سنتِ نبوی ﷺ پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے