سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مولوی محمد اسحاق بھٹی، جو ہمارے چک نمبر ۳۷ نزد و پاکپتن کے خطیب ہیں، میری حقیقی والدہ کے چچازاد بھائی ہیں۔ مولوی صاحب مجھے اپنا بھانجا تسلیم نہیں کرتے۔ اگر میں ان کو "ماموں” کہہ کر پکارتا ہوں تو وہ ناراض ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مجھے ماموں نہ کہو اور نہ ہی میں تیرا ماموں بن سکتا ہوں۔
اب سوال یہ ہے کہ:
◄ ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟
◄ کیا ہمیشہ کے لیے یہ شخص امام رہ سکتا ہے یا نہیں؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جیسا کہ آپ نے وضاحت کی ہے کہ مولوی اسحاق صاحب آپ کی والدہ کے چچازاد بھائی ہیں، اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ آپ کی والدہ کے لیے غیر محرم ہیں۔ یعنی شرعی طور پر ان کا آپ کی والدہ سے نکاح ہو سکتا ہے۔ ایسی صورت میں وہ آپ کے ماموں نہیں کہلائیں گے۔
اگر مولوی صاحب غیرت کی بنا پر آپ کو یہ کہنے سے روکتے ہیں کہ مجھے "ماموں” نہ کہو، تو اس میں تکبر کی کوئی بات نہیں۔ آپ ان کو "مولوی صاحب” کہہ کر بھی پکار سکتے ہیں۔
یاد رکھیں کہ آپ کا ماموں صرف وہی ہوگا:
➊ جو آپ کی والدہ کا حقیقی (سگا) بھائی ہو۔
➋ یا پھر والدہ کا رضاعی بھائی ہو۔
اس کے علاوہ کوئی رشتہ دار ماموں کے حکم میں نہیں آتا۔
لہٰذا، مولوی اسحاق صاحب کی امامت شرعاً جائز ہے، اور ان کی اقتدا میں نماز پڑھنا بلا شبہ درست ہے، بشرطیکہ کوئی دوسرا شرعی مانع نہ پایا جائے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب