سوال:
نابالغ بچی کا نکاح کرنا کیسا ہے؟
جواب:
نابالغ بچی کا نکاح جائز ہے۔
امام ابن منذر رحمہ اللہ (319ھ) فرماتے ہیں:
اجمع كل من نحفظ عنه من اهل العلم ان نكاح الاب ابنته البكر الصغيرة جائز
تمام معتبر اہل علم کا اجماع ہے کہ باپ اپنی نابالغ بچی کا نکاح کر سکتا ہے۔
(المغنی لابن قدامہ: 379/7)
❀ شارح بخاری مہلب بن احمد بن ابی صفرہ اندلسی رحمہ اللہ (435ھ) فرماتے ہیں:
اجمعوا انه يجوز للاب تزويج ابنته الصغيرة البكر ولو كانت لا يوطا مثلها
علماء کا اجماع ہے کہ باپ کے لیے اپنی نابالغ بچی کا نکاح کرنا جائز ہے، گو وہ جماع کے قابل نہ ہو۔
(فتح الباری لابن حجر: 190/9)
❀ علامہ ابن بطال رحمہ اللہ (449ھ) فرماتے ہیں:
نابالغ بچی کا بالغ مرد سے نکاح بلا جماع جائز ہے، گو وہ ابھی پنگھوڑے میں ہی ہو، لیکن خلوت اس وقت اختیار کرے گا، جب جماع کے قابل ہو جائے۔
(فتح الباری لابن حجر: 124/9)
❀ حافظ نووی رحمہ اللہ (676ھ) لکھتے ہیں:
اجمع المسلمون على جواز تزويج الاب ابنته الصغيرة لهذا الحديث
اس حدیث کی رو سے مسلمانوں کا اجماع ہے کہ باپ کا نابالغ بچی کی شادی کرنا جائز ہے۔
(شرح النووی: 206/9)
اجماع امت کے خلاف کوئی دلیل مسموع نہیں ہوتی، اہل حق کا اجماع و اتفاق حق ہے۔ اور حق، حق کا معارض و مخالف نہیں ہو سکتا۔
اگر کوئی کہے کہ نکاح کا مقصود طبعی طور پر یہ ہے کہ بیوی سے شہوت پوری کی جائے اور اولاد پیدا کی جائے۔ نابالغ بچی کے ساتھ نکاح میں یہ دونوں چیزیں مفقود ہیں، تو نکاح کا کیا فائدہ؟ ہم کہتے ہیں نابالغ بچی سے نکاح کو شریعت نے جائز قرار دیا ہے، ایک وقت کے بعد اس نکاح کے طبعی فوائد حاصل ہو جائیں گے، ضروری نہیں کہ نکاح کے فوائد فوراً حاصل ہوں، بہر صورت نکاح کار خیر ہے۔ عقل و نقل اس کی تائید کرتی ہے کہ مجامعت و مقاربت اس وقت کی جائے گی، جب وہ اس کی اہل ہو جائے۔ شریعت نے تو قبل از بلوغ نکاح کا جواز فراہم کیا ہے، بعض لوگ قبل از بلوغ تو کجا، بعد از بلوغت بھی نکاح سے روکتے ہیں اور طرح طرح کی پابندیاں عائد کرتے ہیں، جن کی عقل و نقل سے تائید نہیں ہوتی۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنے بچوں کی جلدی شادی کر کے اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوں، تاخیر سے شادی کرنا کئی پریشانیوں کا پیش خیمہ ہے اور انسانی صحت کے لیے انتہائی ناموزوں بھی ہے۔