شرعی امام کو ذاتی بغض سے ہٹانا کیسا ہے؟ مکمل فتویٰ
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ، جلد 1، صفحہ 427

سوال

چند افراد، جو ذاتی بغض اور کینہ رکھتے ہیں، ایک باشرع امام اور عالم دین کو امامت اور خطابت سے روکنے کے لیے مسجد کی جماعت کے امیر پر دباؤ ڈالتے ہیں۔ حالانکہ جماعت کے تیس سے چالیس نمازی اس امام کی امامت اور خطابت پر متفق ہیں، اور اس کے علاوہ علاقے میں جمعہ کی نماز پڑھنے والوں کی ایک بڑی تعداد بھی اس امام کو پسند کرتی ہے۔ امام صاحب نہ صرف جماعت کی مجلس عاملہ کے رکن ہیں بلکہ مقامی اور باقاعدہ نمازی بھی ہیں۔

ایسی صورت میں کتاب و سنت کی روشنی میں جماعت کے امیر اور ان چار افراد کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جبکہ امام صاحب کی موجودگی میں ایک غیر تعلیم یافتہ اور کتاب و سنت سے ناواقف شخص کو امامت کے لیے آگے کر دیا گیا ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

◄ اگر کسی شرعی عذر کے بغیر صرف ذاتی عداوت یا اختلاف کی بنا پر ایک باشرع اور عالم امام کو امامت کے منصب سے ہٹایا جاتا ہے، تو یہ عمل شرعاً جائز نہیں۔

امام کو امامت سے الگ کرنے کی اجازت صرف اس صورت میں ہے:

✿ جب کوئی شرعی عذر موجود ہو، مثلاً اس کا عقیدہ یا عمل واضح طور پر شریعت کے خلاف ہو۔
✿ اور اس کی معزولی سے فتنے یا جماعتی اختلاف کا اندیشہ نہ ہو۔

◄ اگر کوئی نااہل شخص، جو ان پڑھ ہو اور کتاب و سنت کا علم نہ رکھتا ہو، ایک اہل، باشرع امام کی موجودگی میں امامت کرواتا ہے، تو یہ عمل بھی غیر شرعی اور نظم جماعت کے خلاف ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب٫

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے