سوال
کیا مرد عورتوں کی امامت کرا سکتا ہے جب کہ ان عورتوں کے ساتھ ایک مرد بھی شریک اقتدا نہ ہو؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ عمل جائز ہے، اس میں کوئی قباحت نہیں، بشرطیکہ عورتیں متعدد ہوں اور باپردہ سادہ لباس میں ہوں۔
جیسا کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:
جَاءَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ كَانَ مِنِّي اللَّيْلَةَ شَيْءٌ يَعْنِي فِي رَمَضَانَ، قَالَ: «وَمَا ذَاكَ يَا أُبَيُّ؟» ، قَالَ: نِسْوَةٌ فِي دَارِي، قُلْنَ: إِنَّا لَا نَقْرَأُ الْقُرْآنَ فَنُصَلِّي بِصَلَاتِكَ، قَالَ: فَصَلَّيْتُ بِهِنَّ ثَمَانَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ أَوْتَرْتُ، قَالَ: فَكَانَ شِبْهُ الرِّضَا وَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا۔
(رواه ابو یعلی ونصیرانی بحوء فی الاوسط قال الھیشمی فی مجمع الزوائد ص۷۴ ج۲ أسناده حسن واخرجه ایضا محمد بن نصر المروزی فی قیام اللیل۔ مرعاة المفاتیح: ج۲ص۲۳۰)
ترجمہ:
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:
"اے اللہ کے رسول! آج رات میں نے ایک کام کیا ہے۔” یہ رمضان کا واقعہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا: "وہ کیا ہے اے ابی؟”
انہوں نے کہا: "میرے گھر کی عورتوں نے کہا کہ ہم قرآن نہیں جانتیں، اس لیے آپ تراویح کی نماز گھر میں پڑھا دیں تاکہ ہم بھی آپ کے پیچھے نماز پڑھ سکیں۔”
چنانچہ میں نے ان کو آٹھ رکعت تراویح اور پھر وتر پڑھا دی۔ رسول اللہ ﷺ نے سن کر کوئی بات نہ فرمائی اور ایسا محسوس ہوا کہ آپ نے اس عمل کو پسند فرمایا۔
مسئلہ کی وضاحت
اس تقریری حدیث (سنتِ تقریری) سے یہ ثابت ہوا کہ مرد عورتوں کی امامت کرا سکتا ہے۔
کیونکہ اگر حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا یہ عمل درست نہ ہوتا تو رسول اللہ ﷺ ضرور اس پر ناپسندیدگی کا اظہار فرماتے۔
علمائے اصول کا قاعدہ بھی ہے:
"تاخیر البیان عند المحاجة لیس بجائز”
(یعنی ضرورت کے وقت وضاحت کو مؤخر کرنا جائز نہیں ہوتا)۔
خلاصہ
اس بنا پر یہ حکم واضح ہوا کہ مرد کے لیے عورتوں کی جماعت کروانا جائز ہے، بشرطیکہ عورتیں متعدد ہوں اور پردہ و سادہ لباس کا اہتمام کیا گیا ہو۔