سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین کہ ایک شخص جو مسجد کا امام ہے، وہ یہ کہتا ہے کہ میں فلاں مسجد میں اس شرط پر نماز پڑھاؤں گا یا خطبہ دوں گا کہ اگر مجھے منہ مانگی رقم دی جائے گی۔ مسجد کے مقتدی حضرات اسے ڈیڑھ ہزار روپے دیتے ہیں جبکہ امام صاحب پانچ ہزار روپے کا مطالبہ کرتے ہیں، بعد میں وہ ڈھائی ہزار پر راضی ہو جاتا ہے۔ شرعاً کیا یہ درست ہے کہ کوئی امام اپنی مرضی کی رقم لے؟ قرآن و سنت کی روشنی میں فتویٰ ارشاد فرمائیں۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
امامت اور خطابت کے بارے میں اصولی بات
❀ اگرچہ یہ بات امام اور خطیب کے شایانِ شان نہیں کہ وہ امامت اور خطابت کے لیے اپنی مرضی سے نرخ مقرر کرے اور منہ مانگی رقم وصول کرے۔
❀ تقویٰ یہ ہے کہ امام فی سبیل اللہ اور متوکل علی اللہ ہو کر امامت اور خطابت کے فرائض سرانجام دے۔
❀ مقتدی حضرات پر لازم ہے کہ وہ لوجہ اللہ امام کی کفالت اپنے ذمہ لیں۔
قرونِ سلف کا طریقہ
❀ سلف صالحین کے دور میں تبلیغِ دین کا یہی طریقہ رائج تھا کہ امام و خطیب اخلاص کے ساتھ خدمت کرتے اور امت ان کی کفالت کا اہتمام کرتی۔
❀ اگر کسی مسجد کا بیت المال موجود ہو تو وہاں امام و خطیب کے لیے مقررہ تنخواہ لینے میں کوئی حرج نہیں۔
خلفائے راشدین کا عمل
❀ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانہ خلافت میں مؤذن اور ائمہ کے لیے بیت المال سے وظائف مقرر کیے تاکہ وہ فکرِ معاش سے آزاد ہو کر اپنے فرائض انجام دے سکیں۔
❀ علامہ شبلی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:
"ہر شہر و قصبہ میں امام و مؤذن مقرر کیے گئے اور ان کی تنخواہیں بیت المال سے طے کی گئیں۔”
❀ امام ابن جوزی رحمہ اللہ نے سیرۃ العمر میں لکھا ہے:
أن عمر بن الخطاب وعثمان بن عفان کَانَا یَرْزُقَان المُؤذنین والائمة۔
(الفاروق: ص۲۷۴)
❀ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ امام اور مؤذن کے لیے مقررہ تنخواہ لینا جائز ہے۔
صحابہ کرام کا اجماعی موقف
❀ چونکہ یہ فیصلہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں رائج ہوا اور کسی نے اعتراض نہ کیا، اس لیے اس پر اجماعِ سکوتی ثابت ہوتا ہے۔
❀ یہ اجماع مقررہ تنخواہ لینے کے جواز کی قوی دلیل ہے۔
حدیث سے دلیل
❀ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
((إِنَّ احَق مَا أَخَذتُم عَليه أجْراً کتاب اللہ))
(صحیح البخاری ج۱ص۳۰۴)
❀ یہ حدیث بھی اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن اور دینی خدمت پر اجرت لینا جائز ہے۔
حکمِ شرعی
❀ لہٰذا تنخواہ مقرر کر کے امامت اور خطابت انجام دینا جائز ہے۔
❀ تاہم اگر کوئی شخص دو مختلف جگہوں پر خطبہ دینے کو محض کاروبار بنالے تو یہ عمل دنیاوی لالچ کے زمرے میں آتا ہے۔
❀ یہ طرزِ عمل سلف صالحین یعنی صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے دور میں موجود نہیں رہا۔
❀ ایسا شخص جو محض حرص اور دنیا داری کی بنیاد پر خطابت کو پیشہ بنائے، وہ خطابت کے منصبِ رفیع کے لائق نہیں۔
حدیث کی روشنی میں
❀ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((إِجعلُوا أئمتکم خیارکم))
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب