سوالات
- جو شخص قرآن عزیز غلط پڑھتا ہے شریعت میں اس کا کیا حکم ہے؟
- جاہل اور بےعلم امام کے پیچھے عالم شخص کی نماز ہو سکتی ہے یا نہیں؟
- ایک امام قرآن مجید کے اعراب وغیرہ کا کوئی خیال نہیں کرتا، اس کے متعلق حکم شرعی کیا ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
1- قرآن مجید کو غلط پڑھنے والے کا حکم
- اگر کوئی شخص جان بوجھ کر قرآن پاک غلط پڑھتا ہے تو ایسا شخص سخت گناہ گار، مجرم اور واجب التعزیر ہے۔
- حدیث شریف میں آیا ہے کہ قرآن ایسے شخص پر لعنت کرتا ہے کیونکہ وہ تحریف لفظی کا مرتکب ہوتا ہے، اور تحریف لفظی کفر کے مترادف ہے۔
- ایسے شخص کو توبہ کرنی چاہیے۔
- اگر غلطی جان بوجھ کر نہیں بلکہ کسی مجبوری کی وجہ سے ہے (جیسے لکنت وغیرہ) تو وہ مجبور ہے۔ لیکن پھر بھی اس پر لازم ہے کہ اپنی بساط بھر صحیح پڑھنے کی کوشش کرے۔
- اگر وہ کوشش کرتا رہے گا تو ان شاء اللہ اسے دوہرا ثواب ملے گا۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا أَذِنَ اللَّهُ لِشَيْءٍ مَا أَذِنَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَغَنَّى بِالقُرْآنِ» ، وَقَالَ صَاحِبٌ لَهُ: يُرِيدُ: أَنْ يَجْهَرَ بِهِ
(صحیح بخاری: ص۷۵۱ج۲ باب من لم یتغن بالقرآن)
یعنی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اتنا متوجہ ہو کر کسی چیز کو نہیں سنتا جتنا قرآن کی طرف متوجہ ہو کر سنتا ہے، جب پیغمبرﷺ اس کو خوش آوازی سے پڑھتے ہیں۔
یتغنی بالقرآن کے بارے میں محدثین نے تین مفہوم بیان کئے ہیں:
- قرآن کو ہی کافی سمجھنا اور دیگر مذاہب کی کتب کا مطالعہ غیر ضروری سمجھنا۔
- قرآن کو نعمتِ عظمیٰ جانتے ہوئے بھی اگر کوئی شخص دنیا داروں کی خوشامد کرے اور ان کے سامنے اپنی حاجت بیان کرے تو ایسا شخص مسلمان نہیں۔
- جو قرآن کو خوش آوازی سے نہ پڑھے وہ گناہ گار ہے۔
بہرحال، اس حدیث سے یہ بات واضح ہے کہ قرآن کو صحیح تلفظ اور صحت کے ساتھ پڑھنا لازم ہے۔
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں:
اما تحسین الصوت وتقدیم حسن الصوت علی غیرہ فلا نزاع فی ذلک۔
(فتح الباری: ص۶۴ج۹ طبع مصر)
اور مزید لکھتے ہیں:
أَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ عَلَى اسْتِحْبَابِ تَحْسِينِ الصَّوْتِ بِالْقُرْآنِ مَا لَمْ يَخْرُجْ عَنْ حَدِّ الْقِرَاءَةِ بِالتَّمْطِيطِ فَإِنْ خَرَجَ حَتَّى زَادَ حَرْفًا أَوْ أَخْفَاهُ حَرُامَ۔
(فتح الباری ص۶۳ج۹)
یعنی خوش آوازی سے قرآن پڑھنا بالاجماع مستحب ہے، مگر یہ کہ معروف قراءت کی حد سے تجاوز نہ ہو۔ کوئی حرف بڑھانا یا چھپانا حرام ہے۔
2- جاہل امام کے پیچھے نماز
- اگر عالم جاہل امام کے پیچھے نماز پڑھ لے تو نماز ہو جاتی ہے۔
- لیکن عالم کو چھوڑ کر جاہل کو امام بنانا جائز نہیں ہے، کیونکہ امامت کے لیے ماہر قرآن اور عالم ہونا شرط ہے۔
عَن ابن ابی مسعود عُقْبَبة بن عمر وقال قال رسول اللہﷺ یَؤم القَوْمَ أَقْرَاھُمْ لِکِتَاب اللہ۔۔۔۔
(رواہ احمد ومسلم)
یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قوم کی امامت اللہ کی کتاب (قرآن مجید) زیادہ پڑھنے والا کرے۔
امام شوکانیؒ نے "نیل الاوطار” میں وضاحت کی ہے کہ:
- بعض محدثین کے نزدیک أقراھم سے مراد ہے: جو بہترین قراءت کرنے والا ہو، چاہے کم حافظہ رکھتا ہو۔
- بعض کے نزدیک مراد ہے: جو زیادہ قرآن کا حافظ ہو۔
اس کی تائید ایک اور حدیث سے بھی ہوتی ہے جو طبرانی کبیر، بخاری، ابوداؤد اور نسائی میں موجود ہے کہ حضرت عمرو بن سلمہ فرماتے ہیں:
’’جب میرے والد اسلام لانے کی خبر لے کر نبی کریمﷺ کے پاس آئے تو آپ نے فرمایا: تمہاری امامت وہ کرے جو تم میں زیادہ قرآن جانتا ہو۔ میں سب سے زیادہ جاننے والا تھا، اس لئے انہوں نے مجھے امام بنا دیا۔‘‘
اسی طرح حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
قال النبیﷺ لا تَؤُمَّنَّ إِمْرَأَۃٌ رَجُلاً وَّلا أعرابی م ھاجرا وَّلَا یَؤُمَّنَّ فَاجِرٌ مُّؤمِناً إِلا ان یَقْھَرَ بِسُلْطَان یَخَافُ سَوْطه وسیفه۔
(رواہ ابن ماجه)
یعنی: عورت مرد کی امامت نہ کرے، نہ اعرابی مہاجر کی امامت کرے، اور نہ فاجر مومن کی امامت کرے۔ ہاں، اگر زبردستی سلطان کے زور سے امام بن جائے تو ایسی حالت میں فاجر کے پیچھے نماز جائز ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ عالم کی موجودگی میں جاہل کو امام نہیں بنانا چاہیے۔
3- اعراب کا خیال نہ رکھنے والے امام کا حکم
- ایسا شخص سخت نافرمان ہے، کیونکہ رسول اللہﷺ اعراب، شد، مد اور حرکات کا خاص خیال رکھتے تھے۔
قال قتادة سألت انس بن مالک عن قرأة النبیﷺ فَقَالَ کَانَ یَمُدُّ مَدًّا۔
(باب مد القرأة: ج۱ص۷۵۴)
یعنی قتادہؒ کہتے ہیں: میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہﷺ کی قراءت کیسی تھی؟ انہوں نے فرمایا: آپ مد کے ساتھ پڑھتے تھے، یعنی جس حرف کو لمبا کرنا چاہیے اس کو لمبا کرتے تھے۔
- اس سے معلوم ہوا کہ اعراب (زبر، زیر، پیش، مد وغیرہ) کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
- ورنہ معانی میں بگاڑ اور خلل پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔
- لہٰذا ایسا امام جو اعراب کا خیال نہ رکھتا ہو، اسے خود ہی امامت سے علیحدہ ہو جانا چاہیے۔
- اگر وہ باز نہ آئے تو لوگوں پر لازم ہے کہ اسے امامت سے ہٹا دیں۔
- البتہ اگر ایسا کرنے میں فتنہ کا اندیشہ ہو تو مجبوری ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب