غلط قراءت پر دوبارہ جماعت کا شرعی حکم اور نماز کی حیثیت
ماخوذ: فتاویٰ محمدیہ، جلد 1، ص 419

سوال

ایک عالم دین کی اقتدا میں نماز ادا کرنے کے بعد ایک قاری، جو خود بھی اسی عالم دین کی اقتدا میں نماز ادا کرچکے تھے، نے قراءت میں غلطی کے بہانے یہ کہا کہ ہماری نماز نہیں ہوئی۔ پھر انہوں نے دوبارہ جماعت کرائی اور کچھ لوگ ان کے ساتھ شامل بھی ہوگئے۔ سوال یہ ہے کہ:

◄ کیا ایسا کرنا جائز ہے؟
◄ دوبارہ پڑھنے والی نماز کی کیا حیثیت ہے؟
◄ اور جن لوگوں نے دوبارہ نماز ادا نہیں کی، ان کی نماز کی کیا حیثیت ہے؟

(سائل: حافظ محمد اسمٰعیل نیو ملتان، مشتاق کالونی، ملتان شہر)

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حدیث مبارکہ

عن جابر بن عبد الله، قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم ونحن نقرأ القرآن وفينا الأعرابي والأعجمي، فقال: «اقرءوا فكلّ حسن وسيجيء أقوام يقيمونه كما يقام القدح يتعجلونه ولا يتأجلونه»

رواه ابو داود والبیهقی فی شعب الایمان وسكت عليه ابو داود فهو صالح عنده وأخرجه أيضا أحمد وابن النجار، وفي الباب عن سهل بن سعد الساعدي عند أحمد وأبي داود وابن حبان والطبراني في الكبير والبيهقي في شعب الإيمان وسعيد بن منصور في سنته وعبد بن حميد، وعن أنس عند أحمد وتعدد الطرق يشد بعضها بعضا۔
(تنقيح الرواة: ج۲، ص۶۱، ومشكوة ص۱۹۱)

حدیث کی وضاحت

حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ صحابہ کے پاس تشریف لائے جب وہ قرآن پڑھ رہے تھے۔ ان میں کچھ گنوار اور عجمی لوگ بھی شامل تھے۔ آپ ﷺ نے ان کی قراءت سنی اور فرمایا:
"پڑھو، پڑھو! تم سب ٹھیک پڑھ رہے ہو۔ عنقریب ایک ایسی قوم آئے گی جو قرآن کو بالکل سیدھا کرے گی جیسے تیر سیدھا کیا جاتا ہے۔ وہ اس کا معاوضہ دنیا ہی میں لے لیں گے اور آخرت کے اجر کو نظر انداز کریں گے۔”
یہ حدیث تعدد طرق کی وجہ سے قوی ہے۔

استنباط

◄ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ قرآن مجید کو صرف عربی لب و لہجہ میں پڑھنا لازمی نہیں۔
◄ اصل مقصد نصیحت اور عبرت حاصل کرنا ہے، نہ کہ محض تجوید اور لہجے کی سخت پابندی۔
◄ اگر کوئی عجمی انداز میں پڑھے اور اس کے دل میں اللہ کا خوف اور خشوع موجود ہو تو وہ اس قاری سے بہتر ہے جو محض لہجہ سنوار کر پڑھے لیکن سنت اور محبتِ الٰہی سے خالی ہو۔
◄ دیہاتی اور عجمی لوگ لازمی طور پر عربی لب و لہجہ پر قدرت نہیں رکھتے۔ اسی حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے ان سب کی قراءت پر "فکل حسن” فرما کر ان کی تلاوت کو درست قرار دیا۔

البتہ:
◄ حروف کے مخارج اور صفات کی حد تک رعایت ضروری ہے۔
◄ تجوید میں بے جا تکلف، جس سے مصنوعی انداز اختیار ہو، بدعت ہے۔

اقوال علماء

علامہ سید احمد حسن محدث دہلوی فرماتے ہیں:

"ویقیمونه” کا مطلب ہے کہ وہ الفاظ اور کلمات کی درستگی پر حد سے زیادہ زور دیں گے اور مخارج و صفات کی تکلفات میں مبتلا ہوں گے۔ اس حدیث سے یہ بات ظاہر ہے کہ قرآن پڑھنے میں اصل مقصد اخلاص، نیت کی درستگی، معانی پر غور اور تدبر ہے۔ محض تجوید اور لہجہ قرآن کے مقصد کو پورا نہیں کرتے۔

(سنح الرواة: ج۲، ص۶۱)

خلاصہ حکم

غلط قراءت کی دو صورتیں:

غلط لہجہ لیکن الفاظ محفوظ رکھنا:
◈ اگر قاری پوری کوشش کے باوجود صحیح لہجہ ادا نہ کرسکے لیکن الفاظ میں تبدیلی نہ کرے تو ایسی قراءت شرعاً درست ہے۔
◈ ایسے امام کی اقتدا میں نماز جائز ہے۔

الفاظ کی تبدیلی اور اس پر بے پرواہی:
◈ اگر کوئی امام الفاظ کو بدل دے اور اس کی پروا نہ کرے تو ایسے غیر محتاط امام کی اقتدا جائز نہیں۔
◈ لیکن عام حالات میں کوئی عالم دین جان بوجھ کر ایسی غلطی نہیں کرتا۔

داڑھی تراش قاری کی اقتدا کا حکم

◈ اگرچہ تجوید کی کمی گناہ ہے، مگر داڑھی منڈھنا یا قبضہ بھر سے چھوٹی داڑھی رکھنا بڑا کبیرہ گناہ ہے۔
◈ یہود و نصاریٰ کی مشابہت اختیار کرنا حرام اور شرعاً ناقابلِ برداشت ہے۔
◈ عالم دین اگر غلطی کرے تو وہ اصلاح پر آمادہ ہوتا ہے، لیکن داڑھی تراشنا اللہ کی حدود کو پھلانگنا ہے:
"تلك حدود الله فلا تعتدوها”
◈ لہٰذا داڑھی تراش قاری کی امامت اپنے اختیار سے مقرر کرنا جائز نہیں۔ البتہ اگر پہلے سے وہ امام مقرر ہو تو اتفاقاً اس کے پیچھے نماز پڑھنا درست ہے۔

دوبارہ جماعت کرانے کا حکم

◈ قاری صاحب کا مقرر شدہ امام کو چھوڑ کر دوبارہ جماعت کرانا "فتنہ” اور "شیرازہ بندی میں خلل” ہے، جو ہرگز جائز نہیں۔
◈ مقرر شدہ امام کو چیلنج کرنا شرعاً گناہ ہے۔
◈ قاری کو چاہیے کہ اپنی غلطی پر معافی مانگے اور آئندہ ایسی جسارت نہ کرے۔
◈ جن لوگوں نے دوبارہ نماز ادا کی وہ بھی گناہ گار ہیں اور ان پر لازم ہے کہ عالم دین سے معافی مانگیں۔
◈ جنہوں نے دوبارہ نماز نہیں پڑھی، انہوں نے درست کیا اور وہ اس فتنہ سے بچے رہے۔ ان کی نماز ادا ہوچکی۔

نتیجہ

◈ دوبارہ جماعت کرانا ناجائز اور فتنہ ہے۔
◈ قاری کو توبہ و معافی کرنی چاہیے۔
◈ دوبارہ نماز پڑھنے والے گناہ گار ہیں۔
◈ پہلی نماز میں شامل رہنے والوں کی نماز ادا ہوگئی اور وہ صحیح ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے