مسجد میں انگلیوں میں انگلیاں ڈالنے کا حکم احادیث کی روشنی میں
یہ اقتباس الشیخ محمد منیر قمر کی کتاب احکام مساجد سے ماخوذ ہے۔

مسجد میں ہاتھوں کی انگلیوں میں انگلیاں ڈالنا

مسجد اور خصوصاً نماز کے آداب میں سے ہی ایک ادب یہ بھی ہے، کہ نماز کے دوران یا نماز کے انتظار کی خاطر مسجد میں بیٹھے ہوئے یا گھر سے وضو کر کے مسجد جاتے ہوئے کسی بھی مقام پر اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں نہ ڈالا جائے۔ کیونکہ یہ فعل ممنوع و مکروہ ہے۔ اور احادیث میں اس کی ممانعت کے کئی دلائل موجود ہیں۔ مثلاً سنن دارمی و مستدرک حاکم اور صحیح ابن خزیمہ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے دو طرق سے مروی ہے۔ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا توضأ أحدكم فى بيته ثم أتى المسجد كان فى الصلاة حتى يرجع فلا يفعل هكذا و شبك بين أصابعه
تم میں سے کوئی شخص جب اپنے گھر میں وضو کر کے مسجد میں آئے تو واپس گھر لوٹنے تک وہ گویا نماز میں ہی ہے۔ لہذا اس دوران یوں مت کرے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالا۔
دارمی -348/1 تحقیق در مصطفى ديك البغاء طبع دار القليم دمشق – صحیح ابن خزیمه 227/1 تا 229 – الارواء 1/2 102010 و صححه صحيح الجامع -181/1/1 – صحيح الترغيب 190/1، 191 – المعارف الصحيحه 284/3 – تحقيق المشكوة 314/1
ایسے ہی دارمی و طبرانی اوسط میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے۔ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا توضأ أحدكم للصلاة فلا يشبك بين أصابعه
تم میں سے جب کوئی نماز کے لیے وضو کرے تو پھر دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں داخل نہ کرے۔
صحيح الجامع 446 – والصحيحه حديث 1294
اسی طرح ابو داؤد و ترمذی، نسائی، و ابن ماجہ، مسند احمد و طيالسي اور سنن دارمی اور بیہقی میں حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا توضأ أحدكم فأحسن وضوءه ثم خرج عامدا إلى المسجد فلا يشبكن بين أصابعه فإنه فى الصلاة
جب تم میں سے کوئی شخص وضو کرے اور خوب اچھی طرح وضو کرے اور مسجد میں نماز ادا کرنے کے ارادے سے نکلے تو وہ اپنی انگلیوں کو ایک دوسرے میں داخل نہ کرے، کیونکہ وہ گویا نماز میں ہی ہے۔
صحیح ابی داؤد 526 – صحيح الترمذى 316 ـ ابن ماجه 967 – الفتح الرباني 89/4 – صحیح ترغیب 191/1 – الارواء 102099/2 – منتقى مع نيل 330/2/1 – مسند احمد 241/4 – دارمی 327/1 صحيح الجامع 446 – الصحيحه 1294
اور اسی سلسلہ میں ہی سنن ابی داؤد میں صحیح سند کے ساتھ حضرت سالم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ کہ انگلیوں میں انگلیاں ڈال کر نماز پڑھنے والے شخص کے بارے میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
تلك صلاة المغضوب عليهم
یہ تو ان لوگوں کی نماز کا طریقہ ہے، جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا ہے۔
بحواله الارواء 103،102/2
اور مسند احمد و مصنف ابن ابی شیبہ کی ایک حدیث میں ہے:
إن التشبيك من الشيطان وإن أحدكم لا يزال فى صلاة ما دام فى المسجد حتى يخرج منه
یہ انگلیوں میں انگلیاں ڈالنا شیطانی فعل ہے۔ اور تم میں سے کوئی جب تک مسجد میں رہے وہ نماز میں ہی شمار ہوتا ہے۔ جب تک کہ وہ وہاں سے نکل نہ جائے۔
الفتح الرباني 88/4- وقال سنده جید صحیح ابی داؤد 446 – صحیح ترمذی 271 – ابن ماجه 799
اور ابو داؤد و ترمذی، ابن ماجہ صحیح ابن حبان اور مسند احمد میں ایک حدیث میں ہے:
أنت فى صلاة ما أنتظرت الصلاة
تم جب تک نماز کے انتظار میں رہو گے، تم ایسے ہی ہو گے جیسے نماز ہی پڑھ رہے ہو۔
انظر اعلام الساجد ص 332 نیل الاوطار 334/2/1 – واشار اليه الالبانى تحقيق المشكوة 314/1- مسند احمد 42/2، 54
ان ارشادات نبویہ سے پتہ چلتا ہے کہ گھر سے نکلنے سے لے کر مسجد سے نکلنے تک کسی بھی موقع پر ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں داخل نہیں کرنا چاہیے۔ دوسرے یہ کہ جب تک کوئی شخص کسی نماز کے انتظار میں مسجد میں ہی بیٹھا رہے۔ اس کے لیے اتنا ثواب لکھا جاتا ہے۔ جتنا کہ اس کے لیے لکھا جاتا ہے جو اس عرصہ میں نماز ہی میں مشغول رہے۔ اس لیے اس عرصہ میں اس فعل کو ممنوع و مکروہ قرار دیا گیا ہے۔

کراہت یا ممانعت کی حکمتیں:

اس فعل کے مکروہ قرار دیے جانے کی حکمت کے بارے میں پانچ مختلف اقوال ملتے ہیں:
پہلا: یہ کہ ایک کار عبث یا لایعنی فعل ہے۔
دوسرا: یہ کہ یہ اختلاف سے مشابہت رکھنے والا فعل ہے۔
تیسرا: یہ کہ اس میں شیطان سے مشابہت پائی جاتی ہے۔ جیسا کہ حدیث گزری ہے۔
چوتھا: یہ کہ یہ انداز خشوع و خضوع کے منافی ہے۔
پانچواں: یہ کہ اس طرح نیند کا غلبہ ہو جاتا ہے۔ اور وضو ٹوٹنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ چنانچہ امام نووی رحمہ اللہ نے” ریاض الصالحین“ میں لکھا ہے:
اگر کوئی شخص اپنے گھٹنوں کے گرد باہیں ڈال کر، انگلیوں میں انگلیاں پھنسائے گوٹھ مار کر بیٹھے گا تو نیند آ جائے گی۔ لہذا اس سے ایک تو یہ کہ وضو ٹوٹ جائے گا۔ اور دوسرا نقصان یہ بھی ہوگا کہ اگر جمعہ کے دن دوران خطبہ ایسے بیٹھے گا تو نیند سے وضو کا ٹوٹنا تو ایک طرف وہ خطبہ بھی نہ سن پائے گا۔ جو کہ خسارے کا سودا ہے۔
دیکھئے ریاض الصالحين من 638 – اعلام المساجد ص 334 – فتح البارى 567/1

انگلیوں میں انگلیاں ڈالنے کی چار صورتیں:

اور علامہ بدر الدین الزرکشی نے متاخرین علماء سے نقل کیا ہے۔ کہ انہوں نے انگلیاں ڈالنے کو چار صورتوں میں تقسیم کیا ہے۔ جن میں سے:
پہلی صورت:
یہ ہے کہ انسان نماز کی حالت میں ہو اور دوران نماز ہی اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں ڈالے، اس صورت کی ممانعت و کراہت ذکر کی گئی احادیث میں بالصراحت موجود ہے۔ جس میں کسی قسم کے شک و شبہ کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔
دوسری صورت:
یہ ہے کہ آدمی مسجد میں نماز کے انتظار میں بیٹھا ہو یا پھر گھر سے وضو کر کے مسجد کی طرف جانے اور نماز پڑھنے کا ارادہ ہو۔ تو یہ بھی ہر دو صورتوں میں نمازی کے حکم میں شمار ہوتا ہے۔ لہذا اس صورت کے ہر دو پہلوؤں میں بھی انگلیاں ڈالنا ممنوع فعل ہے۔ اور اس کی ممانعت بھی سابقہ الذکر احادیث میں وارد ہوئی ہے۔
تیسری صورت:
یہ ہے کہ انسان مسجد میں تو ہو۔ لیکن نہ تو وہ ابھی کوئی نماز پڑھنے کا ارادہ رکھے۔ اور نہ ہی کسی دوسری نماز کے انتظار میں ہو۔ بلکہ نماز سے فارغ ہو کر نکلنے سے پہلے ویسے ہی مسجد میں کسی وجہ سے رکا ہوا ہو۔ تو اس کے لیے گنجائش موجود ہے، کہ وہ انگلیوں میں انگلیاں ڈال لے۔ یہ جائز تو ہے۔ اگرچہ پرہیز ہی بہتر ہے۔ اور اس کے جواز پر دلالت کرنے والی احادیث بھی آگے چل کر ہم ذکر کرنے والے ہیں۔
چوتھی صورت:
یہ ہے کہ مسجد سے باہر کہیں ہو اور نماز کے لیے مسجد کی طرف بھی نہ آنے والا ہو، تو اس مطلق صورت میں بھی اس کی اباحت اور عدم کراہت تو بالا ولٰی ہے۔
اعلام الساجد ص 334، 335
اور چار مختلف صورتوں پر مشتمل اس تقسیم کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوا ہے، کہ دو مختلف قسم کی احادیث میں جو بظاہر تضاد و تعارض بنتا نظر آتا ہے۔ کہ بعض میں جواز اور بعض میں ممانعت وارد ہوئی ہے۔ تو اس تقسیم سے وہ سارا تضاد و تعارض ختم ہو جاتا ہے۔
خواتین کے لیے حکم:
اور یہ معاملہ کوئی صرف مسجد میں جا کر نمازیں پڑھنے والے مردوں کے ساتھ ہی خاص نہیں۔ بلکہ اس فعل کی کراہت و ممانعت جہاں مردوں کے لیے ہے۔ وہیں عورتوں کے لیے بھی ہے۔ وہ مسجد میں نہیں آتیں تو کم از کم گھر میں سہی جانماز پر تو کھڑی ہوتی اور بیٹھتی ہیں۔ کچھ نماز پڑھ کر اور کچھ امور کے لیے۔ اور کبھی ایک نماز پڑھ کر دوسری کے لیے بھی جانماز پر بیٹھی رہتی ہیں۔ اور پھر وہ بھی تو وضو کر کے جانماز کا اہتمام کرتی ہیں۔ ان سب صورتوں کے دوران ان کے لیے بھی انگلیوں میں انگلیاں ڈالنا ممنوع ہے۔ اور جن دو صورتوں میں مردوں کے لیے اباحت اور عدم کراہت ذکر کی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ انہی دو صورتوں میں عورتوں کے لیے بھی گنجائش و اباحت اور عدم کراہت وارد ہے۔
جواز کی صورتیں اور رفع تعارض:
اور اب رہیں وہ دو صورتیں جن میں دونوں ہاتھوں کی انگلیوں میں انگلیاں ڈالنا جائز ہے۔ اور ان میں پہلی یہ کہ کوئی شخص مسجد سے باہر تو نہ نکلا ہو لیکن نہ وہ کچھ نماز پڑھتا ہو اور نہ ہی وہ اگلی نماز کے انتظار میں ہو۔ ایسی صورت میں یہ جائز ہے۔ اور اگر مسجد سے باہر ہو اور وضو کر کے نماز کے لیے مسجد بھی نہ جا رہا ہو۔ تو اس مطلق حالت میں یہ بالا ولی جائز ہوگا۔ چنانچہ اس سلسلہ میں جب احادیث سے استدلال کیا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک تو وہ ہے۔ جو کہ صحیح بخاری و مسلم، ترمذی و نسائی اور شعب الایمان ابن ابی شیبہ میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ جس میں وہ بیان کرتے ہیں، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن المؤمن للمؤمن كالبنيان يشد بعضه بعضا
ایک مومن دوسرے مومن کے لیے (سیسہ پلائی) دیوار کی طرح ہے۔ جس کے حصے ایک دوسرے سے قوت پاتے ہیں۔
اور آگے حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بات کو سمجھانے کے لیے:
وشبك أصابعه
اپنی انگلیوں کو ایک دوسرے میں داخل کیا۔
بخارى مع الفتح حديث 48 – مختصر مسلم للمنذري 1773 – صحیح ترمذی -573 صحیح نسائی 240 ایمان ابن ابی شیبه 90 ق بحواله صحيح الترمذى -181/2 – صحيح الجامع 6/6/3
ایسے ہی حضرت عبد اللہ بن عمر یا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہے۔ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی موقع پر ایسا کیا تھا۔ چنانچہ صحیح بخاری و مسلم میں ان سے مروی ہے:
شبك النبى صلى الله عليه وسلم أصابعه
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیاں ایک دوسرے میں داخل کیں۔
بخاری مع الفتح 673/1 حديث 479،478
ان دونوں حدیثوں سے بظاہر مطلق جواز معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اگر ممانعت کی حکمتوں پر ذرا غور کیا جائے تو یہاں بھی اطلاق نہیں رہتا۔ کیونکہ ممانعت کی پہلی ہی حکمت یہ ذکر کی گئی ہے، کہ انگلیوں میں انگلیاں ڈالنا ایک کار عبث اور لایعنی فعل ہے۔ اس لیے ممنوع ہے۔ جب کہ ان احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل مبارک ایسے نہیں تھا۔
بلکہ شارح بخاری البدر ابن المنیر کے بقول وہ تو ایک مثال دے کر سمجھانے کی صورت تھی، کیونکہ کسی بات کو محسوس چیز کے ساتھ بنا کر دکھانا زیادہ قابل فہم ہوتا ہے۔ لہذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر قوت اختیار کرنے کو انگلیوں میں انگلیاں ڈالنے سے پیدا ہونے والی قوت بنا کر سمجھایا کہ مومن بھی جب انگلیوں کی طرح کندھے سے کندھا ملا کر چلنے لگیں تو وہ بھی ان انگلیوں کے مل کر مضبوط ہونے کی طرح ہی سیسہ پلائی ہوئی دیوار جیسے بن جاتے ہیں۔
ایسے ہی باہم اختلاف کرنے اور گتھم گتھا ہونے کو بھی اسی سے بآسانی سمجھا اور سمجھایا جا سکتا ہے۔ لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسا کرنے کی یہ معقول و جوہات تھیں۔ وہ محض بلا وجہ نہیں تھا۔ دوسرے یہ بھی ہے کہ ممانعت اس کے لیے ہے۔ جو نماز میں ہو یا نماز کے انتظار میں ہو۔ جس کا حکم نمازی کا ہے۔ جب کہ یہ دونوں احادیث مطلق ہیں۔ جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز میں ہونے کا تو در کنار نماز کے انتظار میں ہونے کا بھی ذکر نہیں ہے۔
المن احادیث کے علاوہ ایک اور حدیث بھی ہے۔ جو کہ صحیحین اور دیگر کتب میں مشہور و معروف ہے۔ اس میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک نماز میں بھول جانے کا ذکر کرتے ہیں۔ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ رکعتیں چھوٹ گئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا، اور مسجد میں پڑی ایک لکڑی پر ٹیک لگا کر اس انداز سے کھڑے ہو گئے، کہ جیسے کوئی آدمی غصے میں ہوتا ہے۔اور آگے وہ فرماتے ہیں:
ووضع يده اليمنى على اليسرى و شبك بين أصابعه
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں دست مبارک بائیں پر رکھا۔ اور اپنی دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں ڈالا۔
اور آگے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں رخسار بائیں ہاتھ کی پشت پر رکھا اور بعض لوگ جلدی سے نکلے اور کہنے لگے کہ آج نماز کم ہو گئی ہے۔ جب کہ ان میں ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما جیسے جلیل القدر صحابہ تھے۔ لیکن ان میں سے بھی کسی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس معاملہ میں بات کرنے کی ہمت نہ ہوئی، تو ایک شخص جو لمبے ہاتھوں والا تھا۔ جسے ذوالیدین کہا جاتا تھا اس نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !
أنسيت أم قصرت الصلاة؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھول گئے ہیں یا آج نماز ہی کم ہو گئی ہے۔
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لم أنس ولم تقصر
نہ میں بھولا ہوں اور نہ ہی نماز کم ہوئی ہے۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر صحابہ سے ذوالیدین کی تصدیق چاہی تو سب نے تصدیق کی کہ نماز کم پڑھی گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے بڑھے اور چھوٹی ہوئی نماز پڑھائی اور سجدہ سہو کیا۔
بخاری 674/1 حدیث 482 – مسلم مع نووی 68/5/3 تا 70- صحیح ابی داؤد 886 صحیح ترمذی 327۔ صحیح نسائی 1166 – ابن ماجه 1214 – موطا امام مالت به تجيع الخير 3/2/1
اور صحیح بخاری و مسلم میں اسی واقعہ کے بعض طرق میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنما أنا بشر أنسى كما تنسون فإذا نسيت فذكروني
میں ایک بشر ہوں، میں بھی تمہاری طرح بھول جاتا ہوں پس جب میں بھول جاؤں تو مجھے( لقمہ دے کر) یاد دلایا کرو۔
بخارى مع الفتح 503/1، طبع دار الافتاء – مسلم مع نووى 6615/3 – صحیح ابی داؤد -896 صحیح نسائی 1184 – التلخيص 3/2/1
اس واقعہ میں محل شاہد یا مقام استدلال حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے وہ الفاظ ہیں۔ جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس لکڑی کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑے ہونے کے انداز کو بیان کرتے ہوئے یہ بھی فرماتے ہیں کہ:
و شبك بين أصابعه
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں ڈالا۔
تو اس واقعہ میں ظاہر ہے، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی کو کچھ سمجھانے کے لیے بھی ایسا نہیں کیا ہوتا تھا۔ لہذا اس سے عام جواز کا پتہ چلتا ہے۔ لیکن یہ جواز بھی مطلق نہیں ہے۔ بلکہ ایک شارح بخاری اسماعیلی کہتے ہیں، کہ اس حدیث سے بھی ممانعت والی حدیث کے ساتھ کوئی تعارض نہیں بنتا۔ کیونکہ ممانعت اس صورت میں ہے۔ جب کوئی نماز میں ہو یا نماز کے انتظار میں ہو۔ کیونکہ انتظار کرنے والے کا حکم بھی نمازی کا ہی ہے۔ اور یہ تینوں احادیث اس سے خالی ہیں۔
یعنی ان میں نہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی نماز پڑھتے ہوئے ایسا کرنے کا تذکرہ ہے۔ اور نہ ہی اس کا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی نماز کے انتظار میں ہوں، بلکہ یہ مطلق حالت میں ہوا ہے۔ اور اس تیسری حدیث ذوالیدین میں جو انگلیوں میں انگلیاں ڈالنے کا ذکر ہے تو یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھول کے واقع ہو جانے کے بعد اس وقت رونما ہوا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیال کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز مکمل کر چکے تھے۔
اور سلام پھیر کر اپنی جگہ سے بھی ہٹ چکے تھے۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ نماز میں تھے اور نہ نماز کے انتظار میں۔ لہٰذا جواز و عدم جواز والی احادیث میں کسی قسم کا کوئی تعارض باقی نہ رہا۔
انظر فتح الباری 566/1 – طبع دار الافتاء السعودیہ
غرض اس ساری تفصیل سے معلوم ہوا کہ انگلیوں میں انگلیاں ڈالنے کے سلسلے میں جو دو طرح کی احادیث آئی ہیں، ان میں باہم کوئی تضاد و تعارض نہیں ہے۔ بلکہ جن احادیث میں ممانعت وارد ہوئی ہے۔ ان کا تعلق ان صورتوں سے ہے جب کوئی نماز میں ہو یا نماز کے انتظار میں ہو، یا گھر سے نماز کے لیے آ رہا ہو۔ اور جن احادیث میں جواز وارد ہوا ہے۔ ان کا تعلق نہ نماز سے ہے اور نہ نماز کے انتظار سے ہے۔ بلکہ وہ مطلق حالت سے تعلق رکھتی ہیں۔
علامہ عبداللہ رحمانی نے ”المرعاة شرح مشکوٰۃ“ میں اس موضوع کی کافی تفصیلات ذکر کی ہیں۔ اور امام شوکانی رحمہ اللہ نے بھی اس سلسلے کی بحث کے آخر میں لکھا ہے کہ:
اس مسئلے میں ظاہر ہونے والے اختلاف کے بارے میں یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ جن احادیث میں ممانعت وارد ہوئی ہے، وہ افراد امت کے لیے خاص ہیں۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی فعل کسی ایسے ارشاد کا معارض ثابت نہیں ہو سکتا جو کہ امت کے ساتھ خاص ہو جیسا کہ کتب اصول کا مسلمہ قاعدہ ہے۔
نیل الاوطار (335/2/1) – المرعاة 14/3

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے