سوال
مسجد میں جھگڑا کرنا اور دنیاوی باتیں با آواز بلند کرنا شرعاً کیا حکم رکھتا ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مسجد میں شور شرابہ کرنا، بلند آواز سے دنیاوی گفتگو کرنا اور اسی طرح گمشدہ چیزوں کا اعلان کرنا جائز نہیں۔ اس کی وضاحت صحیح مسلم کی روایت سے ہوتی ہے، جس میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوع حدیث مروی ہے:
قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ سَمِعَ رَجُلًا يَنْشُدُ ضَالَّةً فِي الْمَسْجِدِ فَلْيَقُلْ لَا رَدَّهَا اللهُ عَلَيْكَ فَإِنَّ الْمَسَاجِدَ لَمْ تُبْنَ لِهَذَا»
(باب النھی نشد الضالۃ فی المسجد ص۲۱۰ج۱)
’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص کسی کو مسجد میں گمشدہ چیز کا اعلان کرتے ہوئے سنے، تو وہ جواب میں کہے: اللہ تجھے وہ چیز واپس نہ دلائے، کیونکہ مسجدیں اس مقصد کے لیے نہیں بنائی گئیں۔‘‘
دوسری حدیث
((لَا وَجَدْتَهُ، إِنَّمَا بُنِيَتِ الْمَسَاجِدُ لِمَا بُنِيَتْ لَهُ))
’’تو یہ چیز نہ پائے، کیونکہ مسجدیں اسی مقصد کے لیے بنائی گئی ہیں، جس کے لیے وہ بنائی گئیں۔‘‘
امام نوویؒ کی وضاحت
امام نوویؒ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
"إنما بنیت المساجد لما بنیت له” کا مطلب یہ ہے کہ مسجدیں اللہ تعالیٰ کے ذکر، نماز، علمی مذاکرے اور خیر کے کاموں کے لیے بنائی گئی ہیں۔ (نووی: ج۱ ص۲۱۰)
ائمہ کے اقوال
◄ امام مالکؒ اور ان کے ہم خیال علماء: مسجد میں علم کی بات بھی بلند آواز سے کرنا مکروہ ہے۔
◄ امام ابو حنیفہؒ اور امام محمد بن مسلمہ مالکیؒ: ان کے نزدیک مسجد میں علم کی بات یا دنیا کی ضروری گفتگو بلند آواز سے کرنا جائز ہے۔
(نووی: ج۱ ص۲۱۰)
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا واقعہ
حضرت سائب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
"میں مسجد میں کھڑا تھا کہ کسی نے مجھے کنکری ماری، دیکھا تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تھے۔ انہوں نے فرمایا: ان دونوں آدمیوں کو میرے پاس لاؤ۔ میں ان دونوں کو لے آیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا: تم کہاں کے رہنے والے ہو؟ انہوں نے کہا: ہم طائف کے باشندے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر تم مدینہ منورہ کے رہنے والے ہوتے تو میں تمہیں سزا دیتا، کیونکہ تم مسجد رسول میں بلند آواز سے بات کر رہے تھے۔” (رواہ البخاری، مشکوۃ مع تنقیح الرواۃ: ج۱ ص۱۳۳)
محدثین کی وضاحت
سید احمد حسن محدث دہلوی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ امام بخاریؒ نے "باب رفع الصوت فی المسجد” میں یہ حدیث ذکر کرنے کے بعد "باب تقاضی الدین ورفع الأصوات فی المساجد” میں ایک اور حدیث بیان کی ہے۔ اس میں حضرت عبد اللہ بن ابی حدرد رضی اللہ عنہ نے قرض کی واپسی کا مطالبہ کیا اور دونوں بلند آواز میں بات کرنے لگے، لیکن رسول اللہ ﷺ نے انہیں منع نہیں کیا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ:
◄ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت: فضول گفتگو پر پابندی کو ظاہر کرتی ہے۔
◄ عبد اللہ بن ابی حدرد رضی اللہ عنہ کی روایت: ضرورت کے تحت بلند آواز سے بات کی گنجائش کو واضح کرتی ہے۔
امام بخاریؒ کے اس طرزِ عمل سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مسجد میں فضول اور بے مقصد باتوں کو بلند آواز سے کرنا ممنوع ہے، لیکن نفع بخش اور ضروری باتوں کے لیے بلند آواز سے گفتگو کی اجازت ہے۔
ممنوع امور
◈ مسجد میں فضول دنیاوی باتیں کرنا۔
◈ شور شرابہ کرنا۔
◈ خطبات یا وعظ میں نعرے بازی کرنا۔
◈ خطباء کی خوشامد میں "زندہ باد” جیسے غیر شرعی جملے کہنا۔
◈ مسجد میں تصویریں بنانا (جیسا کہ آج کل رواج ہے)۔
یہ سب کام ناجائز، حرام اور بدعتِ سیئہ ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب