کسی ولی کی قبر کا قصد کر کے جانا کیسا ہے؟
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

کسی ولی کی قبر کا قصد کر کے جانا کیسا ہے؟

جواب:

اگر کوئی اس مقصد کے لیے جاتا ہے کہ ولی کی قبر سے برکت حاصل ہوگی، یا اس کے وسیلہ سے دعا کی جائے گی، تو یہ ناجائز اور حرام ہے۔ قبر یا صاحب قبر سے تبرک کا حصول ممکن نہیں۔ کتاب وسنت اور سلف صالحین کی زندگیوں میں اس کا ثبوت نہیں۔
❀ علامہ ابن عبد الہادی رحمہ اللہ (744ھ) ایک حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
اس میں دلیل ہے کہ جس جگہ مشرکین کا میلہ لگتا ہو، اس جگہ کی تعظیم میں جانور ذبح کرنا اسی طرح ناجائز ہے، جس طرح بت کی تعظیم میں اس کے نزدیک ذبح کرنا۔ یہ سب شرک کی طرف جانے والے راستے بند کرنے اور توحید کی حفاظت و صیانت کے لیے ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر وغیرہ پر میلہ لگنے والی جگہ پر جانور ذبح کرنے سے منع فرمایا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قبر کو عیدگاہ اور میلہ بنانے سے منع کرنا بالاولیٰ ثابت ہوگا، کیونکہ قبر کو میلہ گاہ بنانے کے نقصانات میلہ گاہ پر جانور ذبح کرنے سے بہت زیادہ ہیں۔ یہ سب احادیث دلیل ہیں کہ قبروں کو ایسی چیزوں کے ساتھ خاص کرنا، جن سے ان پر آنا جانا زیادہ ہو، ان پر سجدہ کیا جائے، انہیں میلہ گاہ بنایا جائے، ان پر چراغاں کیا جائے، ان کے نزدیک جانوروں کو ذبح کیا جائے، حرام ہے۔ ان احادیث کے مقاصد اور ان کا مشترکہ مفہوم اس سے مخفی نہیں، جس نے خالص توحید کی خوشبو بھی سونگھی ہو۔ یہاں اس شخص کی تاویل کا بطلان بھی واضح ہو جاتا ہے، جو کہتا ہے کہ فرمانِ نبوی: ”میری قبر کو میلہ گاہ نہ بناؤ۔“ کا مطلب یہ ہے کہ کم آنے جانے اور قصد کرنے کے سبب میری قبر کو عید نہ بناؤ، جو سال میں دو مرتبہ ہوتی ہے، بلکہ ہر وقت میری قبر کا قصد کرو، اس کی طرف آنے میں جلدی کرو اور دور اور قریب سے اس کی طرف مسلسل آؤ، اس کام کو اپنی فطرت اور عادت بناؤ حالانکہ یہ مفہوم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات کے خلاف ہے جو آپ نے اپنی قبر اور دوسری قبروں کے بارے فرمائے۔ یہ مفہوم ان چیزوں کی طرف ترغیب دیتا ہے جن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو منع فرمایا ہے اور خطرہ محسوس کیا ہے۔ یہ مفہوم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد کے خلاف ہے، یہ بھی ہے کہ تاویل کرنے والے نے جو معنی بیان کیا ہے وہ اذہان میں تشریح کی بجائے الجھن پیدا کرتا ہے، ایسا کیوں نہ ہو کہ معروف احادیث اس مفہوم کے سخت خلاف ہیں، بلکہ یہ حدیث نبوی خود اس تاویل کو رد کرتی ہے، اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی ہے کہ آپ جہاں بھی ہو، مجھ پر درود پڑھ دینا، پھر اگر (معاذ اللہ!) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہی ہوتی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے قبروں کی طرف قصد کی ترغیب اور زیادہ آنے جانے کے واضح الفاظ میں بیان فرما دیتے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدوں کی طرف زیادہ آنے کی ترغیب دی ہے۔
(الصارم المنکی فی الرد علی السبکی: 310)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے