اہل قبور سے دعا کی درخواست کرنا کیسا ہے؟
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

اہل قبور سے دعا کی درخواست کرنا کیسا ہے؟

جواب:

ناجائز و حرام ہے۔ اہل قبور دنیا والوں سے بے خبر ہیں۔
❀ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728ھ) فرماتے ہیں:
(قبر پرستی کے) جو اکثر فائدے ذکر کیے جاتے ہیں وہ جھوٹ پر مبنی ہوتے ہیں۔ یہ مشرک لوگ قبروں وغیرہ کے پاس جا کر کثرت سے دعا کرتے ہیں۔ بس کبھی کبھار وہ دعا (اللہ کی طرف سے) قبول ہو جاتی ہے۔ اور کوئی مشرک بہت سی دعائیں کرتا ہے لیکن ان میں سے کوئی ایک دعا قبول ہوتی ہے۔ پھر بہت سے مشرک لوگ دعا کرتے ہیں تو ان میں سے کبھی کسی ایک کی اور کبھی کسی ایک کی دعا قبول ہوتی ہے۔ یہ کیفیت ان لوگوں کو کہاں لاحق ہوتی ہے جو سحری کے وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو اپنے سجدوں میں، اپنی نمازوں کے آخر میں اور مساجد میں پکارتے ہیں۔ یہ موحد لوگ جب ان قبر پرستوں کی طرح گڑگڑا کر دعا کریں تو ممکن نہیں کہ ان کی کوئی دعا رد ہو جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب موحد لوگ اس طرح اللہ تعالیٰ سے دعا کریں تو ان کی دعا بہت کم رد ہوتی ہے، جبکہ قبر پرستوں کی دعا قبول ہی بہت کم ہوتی ہے۔ موحدین کی دعا کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
كل مسلم يدعو الله بدعوة ليس فيها اثم ولا قطيعة رحم الا اعطاه الله بها احدى ثلاث اما ان تستجاب له دعوته واما ان يدخرها له في الاخرة واما ان يصرف عنه من السوء مثلها
کوئی بھی مسلمان بندہ جب اللہ تعالیٰ سے کوئی ایسی دعا کرتا ہے جس میں کوئی گناہ یا رشتہ داروں سے قطع تعلقی کی بات نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسے تین باتوں میں سے ایک عطا فرما دیتا ہے۔ یا تو اس کی دعا فوراً قبول کر لیتا ہے یا اس دعا کی مثل کوئی اور بھلائی اسے عطا فرما دیتا ہے یا اس سے کوئی ایسا ہی نقصان دور کر دیتا ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اگر یہ بات ہے تو پھر ہم بہت زیادہ دعائیں کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس سے بھی زیادہ عطا فرمانے والا ہے۔
(مصنف عبد الرزاق: 6/22، الرقم: 29170؛ مسند أبی یعلی: 2/297، ح: 1019؛ مسند الإمام أحمد: 3/18؛ الأدب المفرد للبخاری: 710، وصحح إسناده الحاکم: 1816، وسندہ حسن)
موحد لوگ اپنی دعاؤں میں ہمیشہ بہتری میں رہتے ہیں۔ اس کے برعکس قبر پرست لوگوں کی جب کبھی کبھار کوئی دعا قبول ہو جاتی ہے تو ان کی توحید کمزور ہو جاتی ہے، اپنے رب سے ناطہ تعلق کم ہو جاتا ہے اور وہ اپنے دل میں ایمان کی وہ حلاوت اور ذائقہ محسوس نہیں کرتے جو پہلے مسلمان محسوس کرتے تھے۔
(اقتضاء الصراط المستقیم: 2/689)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے