سوال:
روح جسم سے نکل کر کہاں جاتی ہے اور قیامت سے پہلے تک کہاں رہتی ہے؟
جواب:
اہل سنت کا مذہب ہے کہ روح جب جسم سے خارج ہوتی ہے، تو اس کا علیین یا سجین میں اندراج ہوتا ہے۔ پھر سوال و جواب کے وقت جسم میں لوٹ آتی ہے۔ لیکن جسم اور روح کا یہ اتصال دنیاوی اتصال کی طرح نہیں، بلکہ اس کی کیفیت اللہ ہی جانتا ہے۔ اس کے بعد روح اپنے مقام میں چلی جاتی ہے۔ نیک روح جنت میں اور بد روح جہنم میں داخل ہو جاتی ہے۔ عذاب اور ثواب روح اور جسم دونوں کو ہوتا ہے۔
❀ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728ھ) فرماتے ہیں:
”اہل سنت والجماعت کا اتفاق ہے کہ قبر کا عذاب اور قبر کی نعمتیں جسم اور روح دونوں کو حاصل ہوتی ہیں۔“
(مجموع الفتاوی: 4/282)
❀ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک انصاری کے جنازے کی طرف نکلے، ہم ان کی قبر کے پاس آئے، وہ ابھی تیار نہیں ہوئی تھی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور کبھی آسمان کی طرف چہرہ کرتے اور کبھی زمین کی طرف دیکھتے اور دل ہی دل میں کچھ کلام بھی کرنے لگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی بار فرمایا: عذاب قبر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگیں۔ نیز فرمایا: جب (نزع کے وقت) مومن اخروی حیات میں داخل ہونے لگتا ہے اور اس کا تعلق دنیا سے منقطع ہونے لگتا ہے، تو اسے آسمان سے فرشتے آتے دکھائی دیتے ہیں، جن کے چہرے سورج کی طرح چمک رہے ہوتے ہیں اور تاحد نگاہ اس کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں، ان کے پاس جنت کا کفن اور جنت کی خوشبو ہوتی ہے۔ ملک الموت آتا ہے اور مرنے والے کے سر کے پاس بیٹھ جاتا ہے، اسے کہتا ہے:
ايتها النفس المطمئنة اخرجي الى مغفرة من الله ورضوان
اے مطمئن نفس! نکل جا اور اپنے رب کی مغفرت اور رضا کی طرف چلی جا۔
روح بدن سے نکلے گی اور ایسے نکلے گی، جیسے مشکیزے سے پانی کا قطرہ نکلتا ہے۔ ملک الموت اس روح کو پکڑتا ہے، تو فوراً فرشتے لپک آتے ہیں اور آنکھ جھپکنے کے برابر بھی ملک الموت کے ہاتھ میں رہنے نہیں دیتے۔ جب روح جسم سے نکلتی ہے، تو زمین میں پائی جانے والی کستوری کی عمدہ ترین خوشبو کی مانند ہوتی ہے۔ فرشتے اسے لے کر اوپر چڑھ جاتے ہیں۔ جس بھی فرشتے کے پاس سے گزر ہوتا ہے، وہ پوچھتا ہے: یہ پاکیزہ روح کس کی ہے؟ فرشتے جواب دیتے ہیں: یہ فلاں شخص ہے۔ اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ ہر آسمان کے مقرب فرشتے اس روح کو رخصت کرنے کے لیے ساتھ ساتھ چلتے ہیں، یہاں تک کہ وہ ساتویں آسمان تک پہنچ جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس روح کو علیین میں درج کر دیا جائے۔ اسے درج کر دیا جاتا ہے۔ پھر کہا جاتا ہے کہ اسے زمین کی طرف لوٹا دیں، اس زمین سے ہی ہم نے اسے پیدا کیا، اسی میں لوٹا دیں گے، پھر دوبارہ اسی سے باہر نکالیں گے۔ پھر روح اس کے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے۔ اس کے پاس فرشتے آتے ہیں اور کہتے ہیں: تیرا رب کون ہے؟ وہ کہتا ہے: میرا رب اللہ ہے۔ فرشتے پوچھتے ہیں: تیرا دین کیا ہے؟ وہ کہتا ہے: میرا دین اسلام ہے۔ فرشتے پوچھتے ہیں: جس شخص کو تمہاری طرف مبعوث کیا گیا، اس کے بارے کیا کہتے ہو؟ وہ کہتا ہے: وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ فرشتے پوچھتے ہیں: تجھے کیسے پتا چلا؟ وہ کہتا ہے: میں نے قرآن وحدیث کو پڑھا، اس پر ایمان لایا اور اس (میں جو کچھ ہے، اس) کی تصدیق کی۔ آسمان سے آواز آتی ہے کہ اس نے سچ کہا۔ اس کے لیے آسمان سے بستر بچھا دیں، اسے جنتی لباس پہنا دیں اور جنت میں اس کا مقام دکھا دیا جائے۔ اسے جنت سے خوشبو اور خوشگوار ہوائیں آتی ہیں۔ تاحد نگاہ قبر وسیع کر دی جاتی ہے۔ اس کے سامنے خوبصورت لباس میں ملبوس اور عمدہ خوشبو میں معطر شخص آتا ہے اور کہتا ہے: ان نعمتوں پر خوش ہو جا۔ اسی دن کا تجھ سے وعدہ کیا گیا تھا۔ تو مومن کہتا ہے: اللہ آپ پر رحم کرے، آپ کون ہیں؟ آپ کا چہرہ بتاتا ہے کہ آپ خیر لے کر آئے ہیں۔ وہ کہتا ہے: میں تیرا نیک عمل ہوں۔ اگر مرنے والا کافر ہو، تو اس کے پاس آسمان سے فرشتے آتے ہیں، جن کے چہرے سیاہ ہوتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں ٹاٹ ہوتے ہیں۔ اس کے سامنے تاحد نگاہ بیٹھ جاتے ہیں۔ ملک الموت آ کر اس کے سرہانے بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے:
ايتها النفس الخبيثة اخرجي الى سخط من الله وغضب
اے خبیث روح! نکل جا اور اللہ کے غضب اور اس کی ناراضگی کی طرف چلی جا۔
تو اس کی روح تنگی کے ساتھ اس کے بدن سے جدا ہو جاتی ہے۔ اس کے بدن سے روح ایسے نکالی جاتی ہے، جیسے گیلی اون کانٹے کے ساتھ الجھی ہو، تو اسے کھنچا دیا جائے، اس سے اس کی رگیں اور پٹھے کٹ جاتے ہیں۔ ملک الموت جب اس کی روح کو پکڑتا ہے، تو فوراً فرشتے اُٹھتے ہیں اور آنکھ جھپکنے کے برابر بھی ملک الموت کے پاس نہیں رہنے دیتے۔ اسے ٹاٹ کے کفن میں لپیٹ لیتے ہیں۔ اس روح سے زمین میں پائے جانے والے سب سے زیادہ بدبودار مردار کی مانند بدبو نکلتی ہے۔ فرشتے اس روح کو آسمانوں کی طرف لے جاتے ہیں، جس فرشتے کے پاس سے گزرتے ہیں، وہ پوچھتا ہے: یہ خبیث روح کس کی ہے؟ فرشتے جواب دیتے ہیں: یہ فلاں شخص ہے، اسے برے نام کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے۔ جب یہ روح آسمان کی طرف جاتی ہے، تو اس کے لیے آسمان کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور فرشتوں کو کہا جاتا ہے: اسے زمین پر واپس لے جاؤ۔ اسی سے میں نے اس کو پیدا کیا، اسی میں واپس لوٹا دوں گا اور اسی سے دوبارہ جی اُٹھاؤں گا۔ وہ روح اپنے بدن میں لوٹا دی جاتی ہے۔ اس کے پاس فرشتے آکر کہتے ہیں: تو بیٹھ جا۔ فرشتے پوچھتے ہیں: تیرا رب کون ہے؟ وہ کہتا ہے: ہائے ہائے، میں نہیں جانتا۔ فرشتے پوچھتے ہیں: تیرا دین کیا ہے؟ وہ کہتا ہے: ہائے ہائے، میں نہیں جانتا، میں نے (جو کچھ) لوگوں کو کہتے سنا، (وہ میں نے بھی کہہ دیا۔) میں خود کچھ نہیں جانتا۔ فرشتے پوچھتے ہیں: وہ کون ہے، جو تمہاری طرف مبعوث کیا گیا؟ وہ کہتا ہے: میں نہیں جانتا، میں نے تو لوگوں کو کہتے سنا۔ آسمان سے فرشتوں کو منادی ہوگی کہ یہ جھوٹا ہے۔ اس کے لیے آگ کا بستر بچھا دو، آگ کی پوشاک پہنا دو اور اسے جہنم میں اس کا مقام دکھا دو۔ وہ آگ میں اپنا مقام دیکھتا ہے، اس کو جہنم کی گرمی اور بدبو پہنچتی ہے۔ اس کی قبر اس قدر تنگ کر دی جاتی ہے کہ اس کی پسلیاں آپس میں مل جاتی ہیں۔ اس کے سامنے فتیح چہرے والا ایک شخص آتا ہے، جس نے قبیح لباس پہن رکھا ہوتا ہے اور اس کے جسم سے سخت بدبو آرہی ہوتی ہے۔ کہتا ہے: تجھے عذاب مبارک ہو۔ اسی دن کا تجھ سے وعدہ تھا۔ کافر کہتا ہے: ہائے بربادی، تو کون ہے؟ اللہ کی قسم! تیرا چہرہ بتاتا ہے کہ تو شر اور عذاب کے ساتھ آیا ہے۔ وہ کہتا ہے: میں تیرا برا عمل ہوں۔ تو کافر بار بار کہتا ہے:
رب لا تقم الساعة
اے میرے رب! قیامت قائم نہ کرنا، اے میرے رب قیامت قائم نہ کرنا۔
(الأحادیث الطوال للطبرانی: 25؛ المستدرک للحاکم: 117، وسندہ صحیح)
ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں:
ثم تعاد فيه الروح
پھر اس بدن میں روح لوٹا دی جاتی ہے۔
(مسند الإمام أحمد: 4/287؛ سنن أبی داود: 4753، 4754، وسندہ صحیح)