کیا اہل قبور سے استمداد جائز ہے؟ قران و حدیث کی روشنی میں
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

کیا اہل قبور سے استمداد جائز ہے؟

جواب:

هَٰؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللَّهِ
(10-يونس:18)
یہ اللہ تعالیٰ کے یہاں ہمارے سفارشی ہیں۔
مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَىٰ
(39-الزمر:3)
ہم ان کی عبادت محض اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ کے قریب کر دیں۔
دعا، ندا، طلب، سوال، استعانت، استمداد اور استغاثہ کے ایک ہی معنی ہیں۔ استمداد اور استعانت دعا ہے۔ عبادت کا اطلاق دعا پر بھی ہوتا ہے۔ عبادت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔ اللہ کے علاوہ کسی کو رنج و غم، دکھ، تکلیف اور کرب والم میں پکارنا اور اس سے مافوق الاسباب مدد مانگنا شرك فى العبادت ہے۔ اہل قبور سے مدد مانگنا مافوق الاسباب مدد مانگنا ہے، جو کہ شرک ہے۔
❀ علامہ صنع اللہ حنفی رحمہ اللہ (1120ھ) لکھتے ہیں:
جو یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ کے علاوہ نبی، ولی، روح یا کسی اور ہستی کو مصیبت دور کرنے اور حاجت پوری کرنے کا اختیار ہے، تو وہ جہالت کی خطرناک وادی میں واقع ہو گیا ہے اور وہ جہنم کے دھانے پر کھڑا ہے۔
بعض لوگ دلیل دیتے ہیں کہ اولیائے کرام (حاجت روائی) اپنی کرامات کے ذریعے کرتے ہیں۔ اللہ کی پناہ اس بات سے کہ اللہ کے ولیوں کو ایسے مقام پر سمجھا جائے اور ان سے یہ گمان رکھا جائے کہ وہ کرامت کے ذریعے لوگوں کی تکلیفیں دور کرتے اور ان کو فائدہ پہنچاتے ہیں، یہ تو بتوں کے پجاریوں کا عقیدہ ہوا کرتا تھا۔
(سيف الله على من كذب على أولياء الله، ص 48)
علامہ آلوسی حنفی رحمہ اللہ آیت وسیلہ کے تحت لکھتے ہیں:
بعض لوگوں نے اس آیت سے یہ استدلال لیا ہے کہ صالحین سے استغاثہ کیا جا سکتا ہے اور انہیں اللہ اور بندوں کے درمیان وسیلہ بنایا جا سکتا ہے اور اللہ پر قسم اٹھائی جا سکتی ہے کہ اللہ میں آپ کو فلاں کی قسم دیتا ہوں، مجھے فلاں چیز دے دے، بعض لوگ اللہ کے ایسے صالح بندوں کا وسیلہ بناتے ہیں، جو یا تو مر چکے ہوتے ہیں یا پھر وہاں موجود نہیں ہوتے۔ کہتے ہیں: اے فلاں اللہ سے دعا کرو کہ وہ مجھے فلاں فلاں رزق دے اور وہ اسے وسیلہ قرار دیتے ہیں۔ تو یہ سب چیزیں مختلف مراحل میں حق سے بعید ہیں۔ اس سلسلے میں محقق کلام یہ ہے کہ مخلوق سے بایں طور استغاثہ کرنا کہ وہ ہمارے لیے دعا کرے اور ہم اس کی دعا کا وسیلہ بنائیں، تو بلا شک یہ جائز ہے، اگر وہ صالح شخص زندہ ہو، جس کی دعا کا وسیلہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ جس سے دعا کے لیے کہا جا رہا ہے، اس کا افضل ہونا ضروری نہیں، مفضول سے بھی کروائی جا سکتی ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص کسی غیر موجود بندے یا فوت شدہ بندے سے دعا کروائیں بیٹھ جائے، تو ایک عالم کو اس کے ناجائز ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہو سکتا۔ یہ بدعت ہے، سلف ایسا نہیں کرتے تھے۔ صحابہ میں سے کسی سے منقول نہیں کہ انہوں نے کسی میت سے کوئی چیز طلب کی ہو حالانکہ وہ خیر پر سب سے زیادہ حریص تھے۔
(روح المعاني: 3/294)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے