سوال:
دفن کے بعد قبر پر سورہ بقرہ کا اول اور آخر حصہ تلاوت کرنا کیسا ہے؟
جواب:
دفن کے بعد قبر کے سرہانے یا پائینتی پر سورہ بقرہ کی ابتدائی اور آخری آیات کی تلاوت ثابت نہیں۔ اس کے متعلق پیش کی جانے والی دلیلیں ضعیف ہیں:
عبدالرحمن بن العلاء بن الحجاج نے اپنے والد سے بیان کیا کہ انہوں نے کہا: اے بیٹا! جب میں مر جاؤں، تو میرے سر کے پاس سورہ بقرہ کی ابتدائی اور آخری آیات پڑھنا، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ پڑھتے سنا ہے۔
(المعجم الكبير للطبراني: 19/220، ح: 491، مجمع الزوائد: 3/44)
سند ضعیف ہے، کیونکہ عبدالرحمن بن العلاء مجہول الحال ہے۔ امام ابن حبان رحمہ اللہ کے سوا کسی نے اس کی توثیق نہیں کی۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے مقبول (مجہول الحال) کہا ہے۔
(تقريب التهذيب: 3975)
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے منسوب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فلي قرا عند راسه فاتحة البقرة وعند رجليه خاتمة البقرة
اس کے سرہانے سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات اور پاؤں کے پاس آخری آیات پڑھی جائیں۔
(المعجم الكبير للطبراني: 12/240، ح: 13613)
سند سخت ضعیف ہے، کیونکہ یحیی بن عبداللہ بابلتی ضعیف ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (تقريب التهذيب: 7585، لسان المیزان: 1/490) اور حافظ ہیشمی رحمہ اللہ (مجمع الزوائد: 3/44) نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ ایوب بن نہیک کو امام ابو زرعہ رازی رحمہ اللہ نے منکر الحدیث اور امام ابو حاتم رحمہ اللہ نے ضعیف الحدیث کہا ہے۔
(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم: 1/259)
لہذا حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا اس کی سند کو حسن کہنا درست نہیں۔
(فتح الباري: 3/184)
یہ روایت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنن کبری بیہقی (4/56) میں موقوفاً بھی آئی ہے، لیکن عبدالرحمن بن العلاء بن الحجاج کے مجہول ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔
❀ عامر شعبی رحمہ اللہ سے منقول ہے:
كان الانصار اذا مات لهم ميت قراوا حول قبره القرآن
انصار کا طریقہ تھا کہ جب ان کا کوئی آدمی فوت ہوتا، تو وہ اس کی قبر کے اردگرد قرآن کی تلاوت کرتے۔
(الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر للخلال: 123، مصنف ابن أبي شيبة: 3/236)
سند سخت ضعیف ہے، کیونکہ مجالد بن سعید جمہور کے نزدیک ضعیف ہے۔ اس کا حافظہ آخری عمر میں بگڑ گیا تھا اور وہ تلقین قبول کرتا تھا۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے اس سے متابعت میں روایت لی۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے ضعیف کہا۔
(فتح الباري: 9/480)
حفص بن غیاث مدلس ہیں اور انہوں نے سماع کی تصریح نہیں کی۔
ثابت ہوا کہ قبر پر سورہ بقرہ کی ابتدائی و آخری آیات کی تلاوت بے ثبوت ہے۔ قبرستان میں مطلق تلاوت ممنوع ہے۔