کیا نبی کریم ﷺ قبر میں زندہ ہیں؟ قران و حدیث کی روشنی میں
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں زندہ ہیں؟

جواب:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا چکے ہیں اور دنیا سے منقطع ہو کر اللہ کے پاس برزخی زندگی گزار رہے ہیں۔ قبر میں آپ کی دنیوی زندگی کا کوئی ثبوت نہیں۔
❀ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّن قَبْلِكَ الْخُلْدَ ۖ أَفَإِن مِّتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ ‎﴿٣٤﴾‏ كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۗ وَنَبْلُوكُم بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً ۖ وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ ‎﴿٣٥﴾‏
(21-الأنبياء:34، 35)
ہم نے آپ سے پہلے کسی انسان کو بقائے دوام نہیں بخشا، تو کیا اگر آپ فوت ہو جائیں، تو یہ لوگ ہمیشہ رہنے والے ہیں؟ ہر جان نے موت کا مزہ چکھنا ہے اور ہم تمہیں برائی اور بھلائی میں آزمائش کے لیے مبتلا کرتے ہیں اور تم ہماری ہی طرف پلٹائے جاؤ گے۔
❀ امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
اللہ رب العزت اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے ہیں: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! ہم نے آپ سے پہلے اس دنیا میں کسی آدم زاد کو ہمیشہ کی زندگی نہیں دی کہ آپ کو ہمیشہ زندہ رکھیں۔ ضرور آپ بھی فوت ہوں گے، جیسا کہ آپ سے پہلے ہمارے رسول فوت ہوئے۔
(تفسير الطبري: 24/17)
❀ فرمان باری تعالیٰ ہے:
‏ إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ ‎﴿٣٠﴾
(39-الزمر:30)
اے نبی! بلاشبہ آپ بھی فوت ہونے والے ہیں اور یقیناً یہ کفار بھی مر جائیں گے۔
❀ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (774ھ) لکھتے ہیں:
یہ آیت مبارکہ ان قرآنی آیات میں سے ہے جنہیں سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت بطور دلیل پیش کیا تھا۔ اس آیت سے لوگوں نے آپ کی وفات کا یقین کیا۔ اس کے ساتھ یہ آیت بھی دلیل تھی:
وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۚ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ ۚ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا ۗ وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ ‎﴿١٤٤﴾‏
(3-آل عمران:144)
محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف ایک رسول ہیں، ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں۔ اگر وہ وفات پا جائیں یا شہید کر دیے جائیں، تو کیا تم اسلام سے پھر جاؤ گے؟ جو اپنی ایڑیوں کے بل پھر جائے، وہ اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا اور اللہ عنقریب شکر گزار بندوں کو بدلہ دے گا۔
(تفسير ابن كثير: 6/488)
اہل علم نے واضح کیا کہ برزخی زندگی ایک مستقل اور الگ زندگی ہے، جو دنیوی یا مثل دنیوی نہیں۔
❀ حافظ ابن عبدالہادی رحمہ اللہ (744ھ) فرماتے ہیں:
معلوم ہونا چاہیے کہ موت کے بعد روح کا جسم میں لوٹنا استمرار حیات کا متقاضی نہیں، نہ ہی اس سے قیامت سے پہلے دنیوی زندگی لازم آتی ہے۔ برزخ میں روح کا جسم میں لوٹنا سراسر برزخی معاملہ ہے، جس کی وجہ سے مرنے والے سے موت کا نام زائل نہیں ہوتا۔ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مشہور و طویل حدیث ۔
(سنن أبي داود: 4753، المستدرك للحاكم: 1/95، وسندہ حسن) سے ثابت ہے کہ مردے کی روح اس کے جسم میں لوٹائی جاتی ہے، لیکن وہ ہمیشہ نہیں رہتی، نہ ہی اس سے ایسی زندگی ثابت ہوتی ہے کہ لفظ موت کا اطلاق ختم ہو جائے۔ یہ حیات برزخیہ کی ایک قسم ہے۔ موت اور برزخی زندگی ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ موت کی کچھ اقسام زندگی کے منافی نہیں، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ آپ نیند سے بیدار ہوتے تو دعا پڑھتے:
ٱلْـحَمْدُ لِلَّهِ ٱلَّذِيٓ أَحْيَانَا بَعْدَ مَآ أَمَاتَنَا وَإِلَيْهِ ٱلنُّشُورُ
ہر قسم کی تعریف اس ذات کے لیے ہے جس نے ہمیں موت کے بعد زندگی بخشی اور اسی کی طرف ہم نے لوٹنا ہے۔
(صحيح البخاري: 6324)
روح کا جسم سے تعلق مختلف ہوتا ہے: دنیا میں بیداری اور نیند میں، برزخ میں، اور قیامت کے دن۔ انبیاء کرام کی زندگی شہداء سے زیادہ کامل ہے، اسی لیے ان کے اجسام بوسیدہ نہیں ہوتے۔ شہداء کی زندگی دیگر مؤمنین سے کامل ہے۔ قیامت کے دن روح کا جسم سے تعلق دنیوی زندگی کو ثابت نہیں کرتا۔ جو شخص برزخی زندگی کو دنیوی زندگی سمجھتا ہے، وہ حس، شریعت اور عقل کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے۔
(الصارم المنكي في الرد على السبكي، ص 223)
❀ محدث العصر علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ (1420ھ) لکھتے ہیں:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کی زندگی وفات سے پہلے کی زندگی سے مختلف ہے، کیونکہ برزخی حیات ایک غیبی معاملہ ہے۔ اللہ کے علاوہ کوئی اس کی کیفیات نہیں جانتا۔ یہ دنیوی زندگی سے مختلف اور اس کے قوانین کے تابع نہیں۔ دنیا میں انسان کھاتا، پیتا، سانس لیتا، شادی کرتا، نقل و حرکت اور بول و براز کرتا، بیمار ہوتا اور گفتگو کرتا ہے، لیکن کوئی یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ موت کے بعد، حتیٰ کہ انبیاء کرام، جن میں سرفہرست ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، یہ امور کرتے ہوں۔
(التوسل؛ أنواعه وأحكامه، ص: 65)
❀ نیز فرماتے ہیں:
جان لیں کہ انبیاء کی برزخی حیات دنیوی زندگی سے مختلف ہے۔ اس پر ایمان لانا ضروری ہے، لیکن اس کی مثالیں دینا، کیفیت بیان کرنا یا اسے دنیوی زندگی سے تشبیہ دینا درست نہیں۔ ہر مومن کو احادیث پر ایمان لانا چاہیے اور قیاس یا رائے سے گریز کرنا چاہیے، جیسا کہ بدعتیوں نے کیا۔ بعض نے دعویٰ کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں دنیوی زندگی گزارتے ہیں، کھاتے پیتے اور ازواج سے مجامعت کرتے ہیں (العیاذ باللہ)، حالانکہ یہ صرف برزخی حیات ہے، جس کی حقیقت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
(سلسلة الأحاديث الصحيحة: 2/190، ح: 621)
اہل سنت والجماعت کا اتفاقی عقیدہ ہے کہ ہر شخص کو برزخی زندگی ملتی ہے۔ یہ انبیاء اور شہداء کے ساتھ خاص نہیں، البتہ انبیاء اور شہداء کی زندگی پاکیزہ اور اعلیٰ ہے۔ مومنوں کو قبر میں نعمتیں ملتی ہیں، جبکہ کافر اور فاسق عذاب قبر سے دوچار ہوتے ہیں۔ بعض لوگ برزخی حیات کا انکار کرتے ہیں، جبکہ بعض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی برزخی حیات کو دنیوی زندگی کی مثل قرار دیتے ہیں۔ یہ دونوں نظریات افراط و تفریط ہیں اور قرآن و سنت سے ثابت نہیں۔ سلف صالحین رحمہم اللہ میں سے کوئی ان نظریات کا حامل نہیں تھا۔ حیات و ممات کی بنیاد پر تفرقہ بازی اہل سنت کے عقیدے کی مخالفت ہے۔ یہ اخروی معاملہ ہے، جو صرف قرآن، حدیث اور اجماع امت پر موقوف ہے۔ اعتدال پسندانہ عقیدہ یہ ہے کہ ہر شخص کو برزخی زندگی ملتی ہے، جو سراسر اخروی ہے۔ انبیاء و شہداء کی برزخی زندگی کو دنیوی قرار دینا قرآن و سنت کی مخالفت ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے