سوال
علماء کرام سے دریافت ہے کہ:
ایک شخص علی محمد کا انتقال ہوگیا ہے، اس نے اپنے ورثاء میں چھوڑے:
◄ پانچ بیٹے: شادی خان، محمود، شہمیر، صادق، فقیر محمد
◄ چھ بیٹیاں: خیراں، مکھن، گلاں، مریم، ملی، سیانی
◄ دو بیویاں: نازو اور جادو
اب یہ وضاحت مطلوب ہے کہ شریعت محمدی کے مطابق ہر وارث کو کتنا حصہ ملے گا؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ وراثت کی تقسیم سے پہلے چند امور پورے کیے جاتے ہیں:
➊ سب سے پہلے میت کے ترکہ میں سے اس کے کفن و دفن کا خرچ نکالا جائے۔
➋ اس کے بعد اگر میت پر قرض ہو تو وہ ادا کیا جائے۔
➌ پھر اگر اس نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے کل مال کے ایک تہائی حصے سے پورا کیا جائے۔
➍ اس کے بعد جو مال باقی بچے، وہ ترکہ کہلائے گا، اور اسی کو ورثاء میں تقسیم کیا جائے گا۔
اب تقسیم یوں ہوگی کہ:
◄ دونوں بیویوں کو آٹھواں حصہ (1/8) ملے گا، کیونکہ میت کی اولاد موجود ہے۔ دونوں بیویاں اس حصے میں برابر شریک ہوں گی۔
◄ باقی ماندہ مال کو بیٹوں اور بیٹیوں میں یوں تقسیم کیا جائے گا کہ ہر بیٹے کو دو حصے اور ہر بیٹی کو ایک حصہ دیا جائے گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ﴾
(النساء)
﴿وَإِن كَانُوٓا۟ إِخْوَةً رِّجَالًا وَنِسَآءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ ٱلْأُنثَيَيْنِ﴾
(النساء)
ورثاء کے حصے (قدیم نظام کے مطابق)
فوت ہونے والا: علی محمد
کل جائیداد: 1 روپیہ
◈ بیٹا: 1 آنہ 9 پائی
◈ بیٹا: 1 آنہ 9 پائی
◈ بیٹا: 1 آنہ 9 پائی
◈ بیٹا: 1 آنہ 9 پائی
◈ بیٹا: 1 آنہ 9 پائی
◈ بیٹی: 2/1/10 پائی
◈ بیٹی: 2/1/10 پائی
◈ بیٹی: 2/1/10 پائی
◈ بیٹی: 2/1/10 پائی
◈ بیٹی: 2/1/10 پائی
◈ بیٹی: 2/1/10 پائی
◈ بیوی: 1 آنہ
◈ بیوی: 1 آنہ
ورثاء کے حصے (موجودہ اعشاری نظام کے مطابق)
کل جائیداد: 100 روپے
◈ 2 بیویاں: 12.5 (یعنی 1/8 حصہ) – دونوں میں برابر تقسیم ہوگا، فی کس 6.25
◈ 5 بیٹے (عصبہ): 54.684 – فی کس 10.937
◈ 6 بیٹیاں (عصبہ): 32.812 – فی کس 5.468
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب