کعبہ اور اولیاء کی زیارت: شرعی نقطہ نظر اور عقیدہ اہل سن
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

بعض کہتے ہیں کہ کعبہ اولیاء کی زیارت کے لیے جاتا ہے؟

جواب:

افراط و تفریط اور مبالغہ آمیزی ہر معاملہ میں مذموم ہے۔ غلو باعث ہلاکت ہے، دلائل شرعی اور ائمہ ہدیٰ کی پیروی میں رکاوٹ ہے، غلو وہ قبیح فعل ہے، جو انسانوں کو وسطیت، عدل اور اعتدال پر قائم نہیں رہنے دیتا۔ ظلم و عدوان اور دین میں تشدد کی راہ پر گامزن کر دیتا ہے، یہی حال بعض الناس کا ہے، جنہوں نے کئی دینی احکام و مسائل میں حد اعتدال سے اعراض برتا ہے۔ وہ یہ کہنے لگے کہ کعبۃ اللہ بعض صالحین کی زیارت کے لیے جاتا ہے، حالانکہ اس پر اللہ تعالیٰ نے کوئی سند نہیں اتاری، یہ صرف ان کی منہ کی بات ہے۔
❀ علامہ شامی حنفی (1252 ھ) علامہ نسفی سے نقل کرتے ہیں کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ کہنا درست ہے کہ کعبہ اولیاء کی زیارت کے لیے جاتا ہے، تو علامہ نسفی نے جواباً کہا:
”اہل سنت کے نزدیک اولیاء کے ہاتھوں خارق عادت امور کا صدور ممکن ہے۔“
(فتاوی شامی: 260/4)
❀ علامہ ابن نجیم حنفی (970 ھ) لکھتے ہیں:
”کئی فتاویٰ جات میں لکھا ہے کہ جب کعبہ اولیاء کی زیارت کے لیے جاتا ہے، تو اس دوران جو لوگ کعبہ والی جگہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھ رہے ہیں، ان کی نماز درست ہے۔“
(البحر الرائق: 300/1، فتاوی شامی: 432/1، حاشیہ الطحطاوی، ص 212)
ہم کہتے ہیں آج تک یہ کرامت کسی ولی کے ہاتھوں صادر نہیں ہوئی کہ کعبہ اس کی تکریم و تعظیم میں زیارت کے لیے جائے۔ اہل سنت والجماعت تو اس سے ناواقف ہیں۔
❀ علامہ ابن ابی العز حنفی رحمہ اللہ (792 ھ) لکھتے ہیں:
”اسی طرح جو کہتا ہے کہ کعبۃ اللہ ان کے بعض افراد کا طواف کرتا ہے، وہ افراد کہیں بھی ہوں!! (یہ لوگ بھی دین سے دور ہیں۔) یہ کعبہ حدیبیہ میں کیوں نہ گیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کعبہ میں حاضری سے روک دیا گیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے ایک آنکھ سے دیکھنا چاہتے تھے؟ یہ لوگ تو ان کے مشابہ ہیں، جن کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿بَلْ يُرِيدُ كُلُّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ أَن يُؤْتَىٰ صُحُفًا مُّنَشَّرَةً﴾ (المدثر: 52) ’’بلکہ ان میں سے ہر کوئی (قبول حق کے لیے) چاہتا ہے کہ اسے (آسمان سے) کھلے صحیفے دیے جائیں۔‘‘
(شرح العقیدہ الطحاویہ، ص 512)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے