سوال:
دفن کے بعد قبر پر اذان کا کیا حکم ہے؟
جواب:
دفن کے بعد قبر پر اذان کہنا بدعت ہے، احادیث میں اس کی اصل نہیں اور نہ صحابہ کرام، تابعین عظام، ائمہ دین اور سلف صالحین کے زمانہ میں اس کا وجود ملتا ہے۔ اگر یہ نیکی کا کام ہوتا یا میت کے لیے نفع مند ہوتا تو صحابہ ضرور ایسا کرتے، کیونکہ وہ سب سے بڑھ کر قرآن و سنت کے معانی، مفاہیم و مطالب اور تقاضوں کو سمجھتے اور ان کے مطابق اپنی زندگیاں گزارتے تھے۔
ائمہ اربعہ سے بھی اس کا جواز یا استحباب منقول نہیں، احناف کی امہات الکتب میں تو اس کا ذکر ہی نہیں ملتا، البتہ بعض حنفی علماء نے اس کے عدم جواز کا فتویٰ دیا ہے اور اس کے بدعت ہونے پر صراحت کی ہے۔
❀ علامہ ابن عابدین شامی حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”میت کو قبر میں داخل کرتے وقت مروج اذان سنت نہیں، حافظ ابن حجر مکی نے اس کے بدعت ہونے کی صراحت کی ہے اور فرمایا ہے کہ جس نے اسے بچے کے کان میں اذان دینے پر قیاس کرتے ہوئے اسے سنت سمجھا، تا کہ خاتمہ ابتدا سے مماثلت اختیار کر جائے، وہ درستی کو نہیں پہنچا۔“
(فتاوی شامی: 235/2)