کشف اور کرامات کی حقیقت اور سندی حیثیت کا جائزہ
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

کشف کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟

جواب:

مشاہدہ، مخاطبہ اور مکاشفہ کرامات ہیں، اللہ تعالیٰ کرامت کے طور پر اپنے بعض اولیاء پر کوئی چیز کشف (ظاہر) کر دیتا ہے۔ یہ برحق ہے۔
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو کشف ہوا۔
(دلائل النبوة للبيهقي: 370/6، وسنده حسن)
محمد بن عجلان رحمہ اللہ نے اپنے استاذ ایاس بن معاویہ بن قرہ سے سماع کی تصریح کر رکھی ہے۔ بعض اہل علم کو یہ وہم ہوا کہ ایاس بن معاویہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کا شاگرد ہے، لہذا سند منقطع ہے، جبکہ ایسا نہیں ہے، کیونکہ ایاس بن معاویہ رحمہ اللہ نافع رحمہ اللہ کے شاگردوں میں ہے، نہ کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے۔ لہذا سند متصل ہے۔
❀ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس سند کو ”حسن “اور ”جید “کہا ہے۔
(البداية والنهاية: 131/7)
❀ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ”حسن “کہا ہے۔
(الإصابة في تمييز الصحابة: 5/3)
یاد رہے کہ کشف و کرامت پر اولیاء کا اختیار نہیں ہوتا۔ وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہوتے ہیں، انہیں عمومی دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔
نیز اہل باطل جن مکاشفات و کرامات کا دعویٰ کرتے ہیں، وہ استدراجات ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے