شرعی اصولوں کے مطابق وراثت کی تقسیم کا تفصیلی مسئلہ
ماخوذ : فتاویٰ راشدیہ، صفحہ نمبر 633

سوال

علمائے کرام کی خدمت میں عرض ہے کہ جمال الدین کا انتقال ہوگیا۔ اس کے وارثین میں صرف ایک بیوی اور دو خالہ زاد شامل ہیں، ان کے علاوہ کوئی وارث موجود نہیں۔ اس کے بعد مسمات بانو نے دوسرے خاوند سے نکاح کیا۔ بعد ازاں مسمات بانو کا بھی انتقال ہوگیا اور وہ درج ذیل وارثین چھوڑ گئی:

◄ دو بیٹیاں
◄ دو بھائی
◄ ایک بہن

اب دریافت یہ ہے کہ شریعتِ محمدیہ کی روشنی میں ان کے حصے کس طرح تقسیم ہوں گے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تقسیمِ ترکہ کے اصول

سب سے پہلے فوت ہونے والے شخص کی ملکیت سے یہ امور پورے کیے جائیں گے:

➊ کفن دفن کے اخراجات نکالے جائیں۔
➋ اگر میت پر کوئی قرض ہے تو اسے ادا کیا جائے۔
➌ اگر کوئی جائز وصیت کی گئی ہو تو وہ ترکہ کے ایک تہائی حصے تک پوری کی جائے۔

ان امور کے بعد باقی بچا ہوا ترکہ (چاہے منقول ہو یا غیر منقول) تقسیم کیا جائے گا۔

جمال الدین کا ترکہ

◈ کل ترکہ = 1 روپیہ

تقسیم:

◄ بیوی = 4 آنے
◄ دو خالہ زاد (ذوی الارحام) = 12 آنے

دلیل:

حدیث میں ہے:
((ألحقوا الفرائض بأهلها فما بقى فلأولى رجل ذكر.))

بانو کا ترکہ

◈ کل ترکہ = 1 روپیہ

تقسیم:

◄ دو بیٹیاں = 10 آنے 8 پائیاں (مشترکہ)
◄ باقی = 5 آنے 4 پائیاں

یہ باقی ماندہ ترکہ کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا جائے گا:
◄ ہر بھائی کو = 2 حصے
◄ بہن کو = 1 حصہ

جدید اعشاریہ فیصد نظامِ تقسیم

جمال الدین کا ترکہ

◄ کل ملکیت = 100
◄ بیوی (بانو) = 25 (یعنی 1/4)
◄ دو خالہ زاد (ذوی الارحام) = 75

بانو کا ترکہ

◄ کل ملکیت = 100
◄ دو بیٹیاں = 66.66 (یعنی 2/3، فی کس 33.33)
◄ دو بھائی = 26.672 (فی کس 13.336)
◄ بہن = 6.668

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے