سوال
علمائے کرام اس مسئلہ میں کیا فرماتے ہیں کہ محمد ملوک نے عقل و ہوش کی درست حالت میں ایک ایکڑ زمین اپنی بیوی کو بطورِ ہبہ (تحفہ) دے دی ہے اور یہ وصیت بھی کی ہے کہ میری وفات کے بعد میری ملکیت میں سے بھی اسے حصہ دیا جائے۔ محمد ملوک کا انتقال ہوگیا اور اس کے ورثاء میں بیوی، چار بیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔ شریعتِ محمدی کے مطابق ہر وارث کا حصہ کس قدر ہوگا؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ مرحوم کا ہبہ اور وصیت دونوں درست ہیں۔ لہٰذا:
➊ سب سے پہلے وہ ایک ایکڑ زمین جو بیوی کو بطورِ ہبہ دی گئی تھی، علیحدہ کی جائے گی۔
➋ پھر وصیت کو کل مال کے تیسرے حصے تک پورا کیا جائے گا۔
➌ اس کے بعد باقی جائیداد ورثاء میں شریعت کے مطابق تقسیم کی جائے گی۔
تقسیم کا طریقہ
مرحوم کی کل منقول یا غیر منقول جائیداد کو ایک روپیہ فرض کریں:
✿ بیوی کا حصہ:
قرآنِ کریم میں ارشاد ہے:
﴿فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ﴾
…النساء
چونکہ مرحوم کی اولاد موجود ہے، لہٰذا بیوی کو کل ترکہ کا آٹھواں حصہ (2 آنے) ملے گا۔
✿ اولاد کا حصہ:
قرآن میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿يُوصِيكُمُ اللَّـهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ﴾
…النساء
باقی 14 آنے (یعنی بیوی کے حصہ کے بعد بچنے والا ترکہ) کو 10 حصوں میں تقسیم کیا جائے گا۔
◈ ہر بیٹے کو 2 حصے ملیں گے۔
◈ ہر بیٹی کو 1 حصہ ملے گا۔
جدید اعشاریہ فیصد کے مطابق تقسیم
◈ کل ملکیت: 100%
◈ بیوی: 12.5% (یعنی 1/8)
◈ چار بیٹے (عصبہ): 70% (فی کس 17.5%)
◈ دو بیٹیاں (عصبہ): 17.5% (فی کس 8.75%)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب