محب کی وراثت کی تقسیم اور ہبہ کا شرعی حکم
ماخوذ: فتاویٰ راشدیہ، صفحہ نمبر 620

سوال

علماء کرام کی خدمت میں عرض ہے کہ ایک شخص "محب” فوت ہوگیا۔ اس کے ورثاء میں شامل ہیں:

◄ ایک بیوی "ساواں”،
◄ دو بیٹیاں "سنگھار” اور "بھاگ بھری”،
◄ ایک پوتی "عرب خاتون”،
◄ اور ایک بھانجا "دین محمد”۔

محب نے اپنی بیماری کے دوران اپنی زمین اپنی پوتی عرب خاتون اور اپنے بھانجے دین محمد کو ہبہ کردی تھی۔ لیکن چونکہ زمین مشترکہ صورت میں تھی اور قبضہ اب بھی محب کے پاس ہی تھا، لہٰذا اسی حالت میں وہ وفات پا گیا۔ اس مسئلے کی وضاحت مطلوب ہے۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ بات جان لینی چاہیے کہ:

➊ سب سے پہلے میت کے ترکے سے اس کے کفن و دفن کا خرچ نکالا جائے گا۔
➋ اس کے بعد اگر اس پر قرض ہے تو وہ ادا کیا جائے گا۔
➌ پھر اگر کوئی وصیت کی ہے تو اس کو کل ترکے کے ایک تہائی تک پورا کیا جائے گا۔
➍ اس کے بعد جو کچھ بچے، وہ تمام ترکہ (منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد) ورثاء میں تقسیم ہوگا۔

ترکہ کی تقسیم (قدیم نظامِ آنہ پیسہ کے اعتبار سے)

◈ میت محب کی کل ملکیت: 1 روپیہ

ورثاء کا حصہ:

◄ بیوی (ساواں): 2 آنے
◄ دو بیٹیاں (سنگھار اور بھاگ بھری): 10 آنے 8 پیسے باہم مشترکہ
◄ پوتی (عرب خاتون): محروم
◄ بھانجا (دین محمد): محروم

باقی بچا ہوا حصہ: 3 آنے 4 پیسے

یہ بچا ہوا حصہ دوبارہ بیٹیوں کے درمیان برابر تقسیم کیا جائے گا۔ اس طرح:

◄ ہر بیٹی (سنگھار اور بھاگ بھری) کو 10 آنے 8 پیسے دیا جائے گا۔

ہبہ کا حکم

چونکہ زمین کا قبضہ میت محب کے پاس ہی تھا، اس لیے ہبہ (عرب خاتون اور دین محمد کے حق میں) برقرار نہ رہے گا اور یہ جائیداد ترکہ شمار ہوگی۔

والله أعلم بالصواب

موجودہ اعشاری فیصد نظام کے مطابق تقسیم

◄ کل ملکیت: 100 حصے
◄ بیوی: 12.5% (1/8)
◄ دو بیٹیاں: 87.5% (2/3)
◄ پوتی (عرب خاتون): محروم
◄ بھانجا (دین محمد): محروم

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے