سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ "واحد بخش” نامی شخص وفات پا گیا، اس نے وارث چھوڑے:
◄ 2 بیویاں
◄ ایک بیٹی
◄ ایک بھائی
◄ ایک بہن
اور اس نے یہ وصیت بھی کی کہ "میری ملکیت کی وارث میری بیٹی ہے”۔
شریعتِ محمدی کے مطابق ہر ایک کو کتنا حصہ ملے گا؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ:
➊ مرحوم کی ملکیت میں سے پہلے اس کے کفن دفن کے اخراجات نکالے جائیں گے۔
➋ اگر اس پر کوئی قرض ہے تو وہ ادا کیا جائے گا۔
➌ اس کے بعد اگر اس نے کوئی جائز وصیت کی ہے تو وہ کل مال کے ایک تہائی حصے سے پوری کی جائے گی۔
اس سب کے بعد مرحوم کی باقی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کو ورثاء میں تقسیم کیا جائے گا۔
تقسیمِ وراثت
مرحوم واحد بخش کی کل ملکیت: 1 روپیہ
◄ دو بیویاں → مشترکہ طور پر 2 آنے
◄ بیٹی → 8 آنے
◄ بھائی → 4 آنے
◄ بہن → 2 آنے
وضاحت
﴿فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ﴾
[النساء: ۱۲]
(یعنی اگر اولاد موجود ہو تو بیویوں کو آٹھواں حصہ ملے گا)
﴿وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ﴾
\[النساء: ۱۱]
(یعنی اگر صرف ایک بیٹی ہو تو اسے نصف ملے گا)
بیٹی چونکہ ذوی الفروض میں سے ہے، اس کا مقررہ حصہ آدھا (نصف) ہے۔
بھائی اور بہن عصبہ ہوں گے، اور بہن کو ﴿لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ﴾ \[النساء: ۱۱]
کے اصول کے مطابق بھائی کے ساتھ شامل کیا جائے گا۔
وصیت کا حکم
مرحوم نے یہ وصیت کی تھی کہ "میری بیٹی میری ملکیت کی وارث ہے”۔
یہ وصیت ناجائز ہے کیونکہ:
◈ بیٹی ذوی الفروض میں سے ہے
◈ اس کا حصہ شریعت نے پہلے ہی مقرر کر دیا ہے
◈ وارث کے حق میں وصیت کرنا جائز نہیں
جیسا کہ حدیث میں ہے:
((لا وصية لوارث))
(کسی وارث کے حق میں وصیت نہیں) (ابو داؤد، ترمذی)
جدید اعشاریہ فیصد کے حساب سے تقسیم
کل ملکیت = 100
◄ دو بیویاں → 12.5% (یعنی 1/8 مشترکہ)
◄ بیٹی → 50% (یعنی نصف)
◄ بھائی → 25% (عصبہ)
◄ بہن → 12.5%
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب