جب والدین اجازت دیں
➊ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا عمل اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسند ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا“ میں نے کہا پھر کون سا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”والدین کے ساتھ نیکی کرنا ۔“ میں نے کہا پھر کون سا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الجهاد فى سبيل الله
”اللہ کے راستے میں جہاد کرنا ۔“
[بخاري: 527 ، كتاب مواقيت الصلاة: باب فضل الصلاة لوقتها ، مسلم: 139 ، احمد: 409/1 ، ترمذي: 173 ، نسائي: 292/1 ، حميدي: 103 ، الأدب المفرد للبخارى: 1 ، ابن خزيمة: 327]
ثابت ہوا کہ والدین کے حقوق جہاد پر مقدم ہیں ۔ لیکن یہ اس وقت ہے جب جہاد فرض عین نہ ہو ۔
[نيل الأوطار: 686/4]
➋ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور وہ جہاد میں شرکت کی اجازت طلب کر رہا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تیرے والدین زندہ ہیں؟ “ وہ بولا ہاں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ففيهما فجاهد
”تو تم ان دونوں (کی خدمت ) میں جد و جہد کرو ۔“
[بخاري: 3004 ، كتاب الجهاد والسير: باب الجهاد بإذن الأبوين ، مسلم: 2549 ، ترمذي: 1671 ، نسائي: 10/6 ، حميدي: 985 ، ابن حبان: 318 ، 320 ، بيهقي: 25/9]
➌ ایک روایت میں ہے کہ ”اس شخص نے آ کر کہا میں آپ کے پاس اس لیے آیا ہوں تا کہ آپ کے ساتھ مل کر جہاد کروں اور جب میں آیا تو میرے والدین رو رہے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فارجع إليهما فأضحكهما كما أبكيتهما
”تو ان کے پاس واپس جا اور انہیں اسی طرح خوش کر جیسے تو نے انہیں رلایا ہے ۔“
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 2242 ، ابو داود: 2527 ، كتاب الجهاد: باب فى الرجل يغز و وأبواه كارهان ، احمد: 160/2 ، نسائي: 143/7 ، ابن ماجة: 2782 ، الأدب المفرد للبخارى: 19 ، ابن حبان: 419 ، حاكم: 152/4 ، عبد الرزاق: 9285 ، حميدي: 584 ، مسلم: 2549 ، شرح السنة: 378/10]
➍ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی یمن سے ہجرت کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا یمن میں تمہارا کوئی رشتہ دار ہے؟“ اس نے کہا میرے والدین ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہوں نے تمہیں اجازت دی ہے؟“ اس نے کہا ”نہیں“ ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ارجع إليهما واستأذنتهـمـا فـإن أذنا لك فجاهد وإلا فبرهما
”ان کے پاس واپس جاؤ ، ان سے اجازت مانگو ، پھر اگر وہ دونوں تمہیں اجازت دے دیں تو جہاد کرو ، ورنہ ان کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک کرو ۔ “
[صحيح: صحيح ابو داود: 2207 ، احمد: 75/3 ، ابو داود: 2530 ، كتاب الجهاد: باب فى الرجل يغزو وأبواه كارهان ، حاكم: 103/2 ، ابن حبان: 422 ، بيهقى: 26/9]
➎ حضرت معاویہ بن جاہمہ السلمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جاہمہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا اے اللہ کے رسول ! میں جہاد کرنا چاہتا ہوں اور آپ سے مشورہ لینے آیا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہاری ماں ہے؟“ اس نے کہا ”ہاں“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ألزمها فإن الجنة عند رجليها
”اسے لازم پکڑو (یعنی اس کی خدمت کرو ) کیونکہ جنت اس کے قدموں کے نیچے ہے ۔“
[صحيح: صحيح نسائي: 2908 ، صحيح ابن ماجة: 2781 ، احمد: 429/3 ، نسائي: 11/6 ، ابن ماجة: 2781 ، بيهقي: 26/9]
(جمہور ) جہاد کے لیے والدین کی اجازت لینا واجب ہے اور ان دونوں یا ان میں سے ایک کی اجازت کے بغیر حرام ہے کیونکہ ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا فرض عین ہے اور جہاد فرض کفایہ لیکن جب جہاد فرض عین ہو جائے پھر کسی اجازت کی ضرورت نہیں ۔
[نيل الأوطار: 687/4 ، المغنى: 26/13]
حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ، امام مالکؒ ، امام اوزاعیؒ اور امام شافعیؒ کا یہی مؤقف ہے ۔
[أيضا]
(اوزاعیؒ ) فرائض چھوڑنے میں والدین کی اطاعت نہیں کی جائے گی کیونکہ جب عبادت متعین (فرض عین ) ہو جائے تو والدین کی اجازت کا کوئی اعتبار نہیں ہو گا جیسا کہ نماز (کی ادائیگی میں والدین سے اجازت نہیں مانگی جائے گی ) ۔
[المغني: 27/13]
(بغویؒ ) جب جہاد فرض عین نہ ہو اور والدین مسلمان ہوں تو ان کی اجازت کے بغیر نہ نکلے لیکن جب جہاد فرض عین ہو جائے تو پھر کسی اجازت کی ضروری نہیں اور جب والدین کافر ہوں تو فرض عین یا فرض کفایہ دونوں صورتوں میں جہاد کے لیے بغیر اجازت جانا درست ہے ۔
[شرح السنة: 525/5]
بعض علما کا یہ مؤقف ہے کہ والدین سے اجازت لینا یا نہ لینا مسلمانوں کے امیر پر منحصر ہے اگر وہ کہے تو اجازت لی جائے جیسا کہ احادیث میں موجود ہے اور اگر وہ نہ کہے تو اجازت نہ لی جائے جیسا کہ اکثر و بیشتر ، صحابہ کرام کے متعلق غزوات میں شرکت منقول ہے مثلاً غزوہ بدر ، احد ، احزاب وغیرہ لیکن کسی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں کہا کہ واپس جاؤ اور اجازت لے کر آؤ ۔