نیا مکان یا فیکٹری پر قرآن خوانی اور وظیفہ کا حکم: سنت یا بدعت؟
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ، جلد 1، صفحہ 290

سوال

ہمارے ہاں یہ عام رواج ہے کہ جب کوئی نیا مکان تعمیر کرتا ہے یا فیکٹری کا آغاز کرتا ہے تو دینی مدارس کے طلباء کو بلا کر قرآن خوانی کروائی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ
آیتِ کریمہ
کا وظیفہ بھی سوا لاکھ مرتبہ کھجور کی گھٹلیوں پر پڑھایا جاتا ہے۔ بعد میں ان گھٹلیوں پر ورد کرنے والے طلبہ کو کھانا کھلایا جاتا ہے۔

بعض اوقات یہ کام کرنے والے "ٹھیکے دار” یہ بھی طے کرتے ہیں کہ ہم اس خدمت کا معاوضہ بالکل نہیں لیں گے، البتہ آپ چار ہزار، آٹھ ہزار یا اس سے زائد رقم ہمارے مدرسے کو بطور چندہ دے دیں۔

سوال یہ ہے کہ:

◄ کیا یہ سارا عمل سنتِ رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے یا بدعت شمار ہوگا؟
◄ ایسا کرنے اور کروانے والے کو ثواب ملے گا یا گناہ؟
◄ اور ایسی مجالس میں شریک ہونا کیسا ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآن خوانی نہ تو رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے، نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے، اور نہ ہی سلف صالحین رحمہم اللہ سے اس کا کوئی ثبوت ملتا ہے۔

اس زمانے میں بھی مکانات اور دکانیں تعمیر ہوتی تھیں، اور صحابہ کرامؓ و سلف صالحینؒ برکت کے حصول کے معاملے میں ہم سے کہیں زیادہ شوق رکھتے تھے۔ یعنی مقتضی اور داعیہ اُس وقت بھی موجود تھا، لیکن اس کے باوجود اس طرح کی قرآن خوانی کی محفلوں کا اہتمام بالکل ثابت نہیں ہے۔

لہٰذا یہ عمل بدعت ہے، اور اہلِ حدیث کو چاہیے کہ ان بدعات سے لازمی اجتناب کریں۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے تو کھجور کی گھٹلیوں پر
لا الہ الا اللہ
کا ورد کرنے کو بھی بدعت قرار دیا تھا، جیسا کہ
سنن دارمی
میں یہ واقعہ تفصیل سے مذکور ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے