وتر یا ختم قرآن کے بعد چیخ و پکار کے ساتھ اجتماعی دعا کا حکم
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ، جلد ۱، صفحہ ۲۷۶

سوال

بعض مساجد کے خطیب صاحب وتر کی نماز کے بعد مسجد کی تمام بتیاں بند کر دیتے ہیں، پھر نہایت گریہ و زاری کے ساتھ چیخ و پکار کرتے ہوئے روتے اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعائیں مانگتے ہیں۔ اس کے علاوہ مسجد میں موجود حاضرین کے لیے سحری کا بھی انتظام کیا جاتا ہے۔ یہ مجلس صبح صادق کے قریب اختتام پذیر ہوتی ہے۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

وتر کے بعد یا ختم قرآن کے موقع پر بتیاں بجھا کر چیخ و پکار کے ساتھ اجتماعی دعا کرنا رسول اللہ ﷺ، صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین سے ہرگز ثابت نہیں۔ بلکہ ائمہ سلف نے اس قسم کی دعا سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے اور اسے بدعت قرار دیا ہے، جیسا کہ امام مالکؒ، امام طرطوشیؒ، امام ابو شامہؒ اور علامہ امیر الحاجؒ کے حوالے سے وضاحت موجود ہے۔ مزید ملاحظہ فرمائیں:

امام مالکؒ کا قول

عن ابن القاسم قال سئل مالك عن الذی یقرأ القرآن فیختمه ثم یدعو قال ما سمعت انه یدعی عند القرآن وما ھو من عمل الناس۔
(کتاب المحوادث والبدع: ص۴۹، المدخل ج۲ ص۳۰۸)

’’ابن القاسم روایت کرتے ہیں کہ امام مالکؒ سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو ختم قرآن کے وقت دعا مانگتا ہے تو آپ نے فرمایا: میں نے یہ نہیں سنا کہ ختم قرآن پر دعا کی جاتی ہے اور نہ ہی یہ اہل علم کا معمول ہے۔‘‘

حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمٰنؒ کا قول

وروی ابن القاسم أیضا عن مالك أَنَّ ابا سلمة بن عبدالرحمٰن رای رجلا یدعو رافعا یدیه فانکر ذلك وقال لا تقلصوا تقلیص الیھود۔ قال مالك التقلیص رفع الصوت بالدعاء ورفع الیدین۔
(المدخل: ۳۰۸، ج۲)

’’ابن القاسم روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمٰنؒ نے ایک شخص کو بلند آواز اور اونچے ہاتھوں کے ساتھ دعا کرتے دیکھا تو فرمایا: یہودیوں کی طرح دعا میں آواز بلند اور ہاتھ حد سے زیادہ اونچے مت کرو۔‘‘

امام طرطوشیؒ کی وضاحت

ینبغی له أن یتجنب ما احدثوہ بعد ختم القرآن من الدعاء یرفع الاصوات والزعقات وقال اللہ تعالیٰ فی محکم کتابه العزیز اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعاً وَّخُفْیة …
(المدخل: ج۲، ص۳۰۴)

’’ختم قرآن کے بعد لوگوں نے جو بدعت ایجاد کر لی ہے یعنی بلند آواز اور شور و غوغا کے ساتھ دعا کرنا، اس سے اجتناب ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعاً وَّخُفْیةً (الاعراف:۵۵)
لیکن یہ لوگ اس آیت کے حکم سے روگردانی کرتے ہیں اور سنت کی مخالفت کرتے ہیں۔‘‘

امام شاطبیؒ کی نکیر

وَعَنْ أَبِي مُوسَى؛ قَالَ: «كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَجَعَلَ النَّاسُ يَجْهَرُونَ بِالتَّكْبِيرِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرْبِعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ؛ إِنَّكُمْ لَا تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلَا غَائِبًا؛ إِنَّكُمْ تَدْعُونَ سَمِيعًا قَرِيبًا، وَهُوَ مَعَكُمْ» …
(الاعتصام للشاطبی: ج۱، ص۲۱۷)

’’حضرت ابو موسیٰؓ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر میں تھے۔ صحابہ کرام بلند آواز سے تکبیر کہنے لگے تو آپ ﷺ نے فرمایا: اپنے آپ پر نرمی کرو، تم بہرے یا غائب کو نہیں پکار رہے، بلکہ تم ایسے رب کو پکار رہے ہو جو سننے والا، قریب اور تمہارے ساتھ ہے۔‘‘

امام شاطبیؒ مزید فرماتے ہیں کہ سلف نے بھی مبتدعین کی طرح مخصوص ہیئت کے ساتھ اجتماعی دعا کرنے سے منع فرمایا ہے۔

امام امیر الحاجؒ کی رائے

امام امیر الحاجؒ نے یہاں تک لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص ایسی بدعات کو روکنے کی طاقت نہیں رکھتا تو اس کے لیے بہتر ہے کہ وہ اپنے گھر پر نماز ادا کرے اور مسجد میں جانا ترک کر دے۔

خلاصہ کلام

ختم قرآن یا وتر کے بعد بتیاں بجھا کر چیخ و پکار اور بلند آواز کے ساتھ اجتماعی دعا کرنا بدعت ہے۔ اس سے مکمل طور پر اجتناب ضروری ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے