اسلام میں بدشگونی کا حکم: قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ، جلد 1، صفحہ 230

سوال

علمائے دین و شرع متین کی خدمت میں گزارش ہے کہ بعض حضرات اپنے لیے بدشگونی پکڑتے ہیں۔ قرآن و سنت کی روشنی میں اس بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بدشگونی کسی جگہ، وقت، مکان یا اشخاص وغیرہ سے لی جاتی ہے۔ یہ ان اوہام میں سے ہے جو پرانے زمانے کے رواج سے چلے آ رہے ہیں۔

جیسا کہ قرآن مجید میں ذکر ہے کہ حضرت صالح علیہ السلام کی قوم نے ان سے کہا تھا:

﴿طَّيَّر‌نا بِكَ وَبِمَن مَعَكَ﴾ .. سورة النمل

’’ہمارے خیال میں تو تم اور تمہارے ساتھی شگون بد ہیں۔‘‘

اسی طرح فرعون اور اس کی قوم کا حال تھا کہ جب ان پر کوئی مصیبت آتی تو وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو نحوست کا سبب قرار دیتے:

﴿يَطَّيَّر‌وا بِموسىٰ وَمَن مَعَهُ﴾ … سورة الاعراف

اسی طرح اکثر کفار جو گمراہی میں مبتلا تھے، جب کوئی مصیبت آتی تو یہی کہا کرتے:

﴿اِنَّا طَّيَّر‌نا بِكُمْ﴾ (سورۃ یس)

’’ہم تمہیں اپنے لیے بدشگون سمجھتے ہیں۔‘‘

اور اس پر انبیاء علیہم السلام یہ جواب دیا کرتے تھے:

﴿طَائِرُكُم مَعَكُم﴾ (یس)

’’تمہاری بدشگونی تمہارے ساتھ لگی ہوئی ہے۔‘‘

یعنی تمہاری مصیبت تمہارے اپنے ساتھ وابستہ ہے، اور اس کا سبب تمہارا کفر، ضد اور سرکشی ہے۔

زمانہ جاہلیت کے عقائد اور اسلام کی اصلاح

زمانہ جاہلیت میں عربوں کے بدشگونی سے متعلق عقائد مختلف تھے، لیکن اسلام نے ان سب کو باطل قرار دیا اور انسان کو عقل و حقیقت کی راہ دکھائی۔

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

ليس منا من تطير او تطيرله تكهن له او سحر او سحر له. (طبراني)

’’وہ شخص ہم میں سے نہیں جو برا شگون لے یا جس کے لیے برا شگون لیا جائے، یا جس کے لیے کہانت کی جائے، یا جو جادو کرے یا جادو کروائے۔‘‘

نیز آپ ﷺ نے فرمایا:

العيافة والطيرة والطرق من الجبت (ابوداؤد، والنسائي، وابن حبان)

’’پرندے سے برا شگون لینا، بدشگونی لینا اور کنکریاں مار کر شگون لینا جبت (یعنی وہم پرستی) ہے، یہ سب اسی قبیل سے ہیں۔‘‘

بدشگونی کی حقیقت

◈ بدشگونی نہ علم پر مبنی ہے اور نہ ہی واقعات کی بنیاد پر۔
◈ یہ صرف کمزوری، وہم اور توہم پرستی کا نتیجہ ہے۔
◈ کوئی عقل مند آدمی کیسے یہ سوچ سکتا ہے کہ فلاں شخص یا جگہ منحوس ہے، یا کسی پرندے کی آواز، آنکھ کی حرکت، یا کوئی کلمہ سن کر نقصان کا اندیشہ ہے؟

اصل حقیقت یہ ہے کہ اگر انسان کے دل میں کمزوری اور خوف پایا جائے تو وہ بدشگونی پر آمادہ کرتا ہے۔ لیکن انسان کو چاہیے کہ:
◈ اس کمزوری کے آگے ہتھیار نہ ڈالے۔
◈ بدشگونی کے وہم کو فوراً جھٹک دے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے