سوال
شمالی علاقہ جات اور چترال میں آغاخانیت کے پیروکار، آغاخان فاؤنڈیشن اور آغاخان سپورٹ پروگرام وغیرہ کے ذریعے رفاہ عامہ کے نام پر غریب و نادار لوگوں کو مالی تعاون فراہم کرتے ہیں، اور اس کے بدلے اپنی تنظیم کی رکنیت دیتے ہیں، نیز اس مقصد کے لیے خطیر رقم بھی خرچ کرتے ہیں۔ تو کیا قرآن و سنت کی روشنی میں ان تنظیموں کی رکنیت اختیار کرکے اس طرح کا فنڈ لینا جائز ہے یا نہیں؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
انسانی زندگی اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے۔ اس کی قدردانی اسی وقت ممکن ہے جب یہ زندگی اسلامی اصولوں اور ضابطوں کے مطابق گزاری جائے۔ اگر یہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں بسر ہو تو یہی زندگی انسان کے لیے وبالِ جان بن جاتی ہے۔ لہٰذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ اپنی زندگی کو اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق ڈھالے تاکہ دنیا و آخرت میں کامیابیاں حاصل کرسکے۔
اسلام کے ان اصولوں میں سے ایک اہم اصول یہ ہے کہ نیکی کے کاموں پر باہمی تعاون کیا جائے اور برائی کے کاموں کی مخالفت کی جائے۔
قرآن کریم سے رہنمائی
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَتَعاوَنوا عَلَى البِرِّ وَالتَّقوىٰ ۖ وَلا تَعاوَنوا عَلَى الإِثمِ وَالعُدوٰنِ ﴿٢﴾… سورة المائدة
’’نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور گناہ اور ظلم و زیادتی میں مدد نہ کرو۔‘‘
آغاخانیت کی تنظیموں کی سرگرمیاں
جب اس اصول کی روشنی میں زیر بحث مسئلہ پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ہمیشہ لادین قوتوں نے رفاہ عامہ کے نام پر مسلمانوں کے درمیان بے راہ روی اور باطل عقائد کو فروغ دینے کے لیے اخراجات کیے ہیں۔
اسی طرح آج بھی شمالی علاقہ جات میں غربت اور بنیادی سہولتوں کی کمی دیکھ کر آغا خانی تنظیمیں سرگرم ہیں۔ یہ تنظیمیں بظاہر رفاہی کاموں پر خرچ کرتی ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کے ذریعے مسلمانوں کو اپنی تنظیم کا رکن بنایا جاتا ہے اور پھر ان کے اندر باطل نظریات کو فروغ دیا جاتا ہے۔ اس طرح ان تنظیموں کی رکنیت اختیار کرنا اور ان سے مالی تعاون لینا دراصل برائی میں مدد اور باطل مقاصد کی تکمیل ہے، جو کہ شرعاً کسی صورت بھی جائز نہیں، بلکہ حرام اور ممنوع ہے۔
قرآن سے مزید دلیل
اللہ تعالیٰ نے ایک اصول بیان کیا ہے کہ اگر کسی چیز میں فوائد ہوں لیکن اس کے نقصانات زیادہ ہوں تو اس سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہوتا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يَسـَٔلونَكَ عَنِ الخَمرِ وَالمَيسِرِ ۖ قُل فيهِما إِثمٌ كَبيرٌ وَمَنـٰفِعُ لِلنّاسِ وَإِثمُهُما أَكبَرُ مِن نَفعِهِما…﴿٢١٩﴾… سورة البقرة
’’وہ آپ سے شراب اور جوا کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ کہہ دیجئے کہ ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں، لیکن ان کا گناہ ان کے فائدے سے زیادہ ہے۔‘‘
لہٰذا ان کے منافع کے باوجود انہیں حرام قرار دیا گیا۔
حدیث سے رہنمائی
اسی طرح جب کسی معاملے میں اچھائی اور برائی دونوں امکانات موجود ہوں تو احتیاط کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ جیسا کہ مشکوٰۃ، باب اللعان میں روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت سودہ بنت زمعہؓ کو ان کے بھائی سے بطور احتیاط پردہ کرنے کا حکم دیا تھا۔
نتیجہ
آغاخان فاؤنڈیشن اور اس جیسی تنظیموں کی امداد میں بظاہر وقتی فائدہ ضرور ہے، لیکن اس کے نقصانات کہیں زیادہ ہیں۔ اس امداد کے ذریعے یہ تنظیمیں اپنے باطل نظریات اور مذموم مقاصد کو مسلمانوں میں فروغ دیتی ہیں۔ لہٰذا:
◈ ان تنظیموں سے امداد لینا دراصل برائی اور گمراہ عقائد کی ترویج میں تعاون ہے۔
◈ یہ کام شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔
◈ مسلمانوں پر لازم ہے کہ ان تنظیموں سے بچیں۔
◈ حکومت کو بھی چاہیے کہ اسلام دشمن سرگرمیوں کو روکے تاکہ سادہ لوح مسلمان گمراہی سے محفوظ رہ سکیں۔
فقط
حافظ عبدالوہاب روپڑی
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب