سوال
(1) کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ میں کہ ایک شخص محمد صدیق فوت ہوگیا، اس نے ورثاء میں چھوڑے:
◄ ایک بیوی
◄ ایک بیٹی
◄ دو بھتیجے
◄ تین بھتیجیاں
بتائیے کہ شریعتِ محمدی کے مطابق ان سب کو کتنا کتنا حصہ ملے گا؟
(2) یوسف فوت ہوا، اس کے بیٹے بھی ہیں اور بیٹیاں بھی۔
◄ بیٹیوں کا حقِ ولایت کس کو حاصل ہوگا؟
◄ اور یوسف کے وارث کون ہوں گے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سب سے پہلے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ فوت ہونے والے شخص کی ملکیت میں سے درج ذیل ترتیب کے مطابق تصرف کیا جائے:
➊ سب سے پہلے کفن و دفن کا خرچ نکالا جائے۔
➋ اگر کوئی قرض ہو تو اسے ادا کیا جائے۔
➌ اگر کوئی وصیت کی ہو تو مال کے تیسرے حصے تک اس پر عمل کیا جائے۔
➍ اس کے بعد باقی مال (منقولہ یا غیر منقولہ) کو ایک روپیہ کی بنیاد بنا کر ورثاء میں تقسیم کیا جائے۔
(1) مرحوم محمد صدیق کی میراث
کل ملکیت = 1 روپیہ
◈ بیوی → 2 آنے
◈ بیٹی → 8 آنے
◈ بھتیجا (1) → 3 آنے
◈ بھتیجا (2) → 3 آنے
◈ بھتیجیاں (3) → محروم
بھتیجیوں کو کوئی حصہ نہیں ملے گا کیونکہ حدیث مبارکہ میں ہے:
((الحقوا الفرائض بأهلها فمابقى فلأولى رجل ذكر.))
صحيح بخارى، كتاب الفرائض، باب ميراث ابن الابن اذا لم يكن ابن، حديث: 6735
صحيح مسلم، كتاب الفرائض، باب الحقوا الفرائض بأهلها، حديث: 4141
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ﴾
اور مزید فرمایا:
﴿وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ﴾
(2) یوسف کی میراث اور بیٹیوں کا حقِ ولایت
◈ یوسف کی وفات کے بعد اس کی بیٹیوں کے وارث یوسف کے بیٹے ہیں۔
◈ یوسف کی بیٹیوں کے حقِ ولایت بھی یوسف کے بیٹوں کو حاصل ہے، کیونکہ یہی اس کے صحیح حقدار ہیں۔ ولایت کا حق صرف بھائیوں کو ملتا ہے، کسی اور کو نہیں۔
◈ یوسف کی بیٹیاں باقی ماندہ ترکہ میں شریک اور حصہ دار ہیں۔
مزید یہ کہ:
محمد صدیق نے اپنے بھائی محمد یوسف کی جگہ بیچ ڈالی تھی، حالانکہ اس جگہ کے اصل حقدار محمد یوسف کی اولاد تھی۔ اس لیے سب سے پہلے محمد صدیق کی ملکیت میں سے اس جگہ کی قیمت محمد یوسف کی اولاد کو ادا کی جائے گی۔ اس ادائیگی کے بعد باقی ترکہ ورثاء میں تقسیم ہوگا۔
جدید اعشاریہ (فیصدی نظام تقسیم)
کل ملکیت = 100
◈ بیوی → 12.5% (1/8)
◈ بیٹی → 50% (1/2)
◈ 2 بھتیجے → 37.5% (عصبہ، فی کس 18.75%)
◈ 3 بھتیجیاں → محروم
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب