دو بیٹے اور چار بیٹیاں کے درمیان ترکہ کی شرعی تقسیم
ماخوذ : فتاویٰ راشدیہ، صفحہ نمبر 606

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ میں کہ محمد عرس کا انتقال ہوگیا۔ اس نے اپنے بعد وارث چھوڑے:

◄ 2 بیٹے (محمد اور محمد حسین)
◄ 4 بیٹیاں

بتائیں کہ شریعت محمدی کے مطابق سب کو کتنا کتنا حصہ ملے گا؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سب سے پہلے یہ بات یاد رہے کہ مرحوم کی جائیداد سے سب سے پہلے درج ذیل امور پورے کیے جائیں گے:

➊ کفن دفن کا خرچ نکالا جائے۔
➋ اگر مرحوم پر کوئی قرض ہو تو وہ ادا کیا جائے۔
➌ اگر کوئی جائز وصیت کی ہو تو وہ مال کے تیسرے حصے تک پوری کی جائے۔

اس کے بعد جو کچھ بچے، وہی حقیقی ترکہ شمار ہوگا اور وہی تقسیم کے قابل ہوگا۔

تقسیمِ ترکہ

مرحوم محمد عرس کی کل ملکیت: 1 روپیہ

◄ بیٹا محمد → 4 آنے
◄ بیٹا محمد حسین → 4 آنے
◄ بیٹی → 2 آنے
◄ بیٹی → 2 آنے
◄ بیٹی → 2 آنے
◄ بیٹی → 2 آنے

قرآن مجید کا اصول

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿لِلذَّكَرِ‌ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ﴾

جدید اعشاریہ نظام کے مطابق تقسیم

اگر کل ملکیت کو 100 شمار کیا جائے تو تقسیم یوں ہوگی:

◄ 2 بیٹے (عصبہ) → 50 (فی کس 25)
◄ 4 بیٹیاں (عصبہ) → 50 (فی کس 12.5)

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے